فواد چودھری کی جانب سے یہ بیان شاید اس موقع پر اس لئے آیا کیونکہ گذشتہ دو ہفتوں سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ موجودہ دورِ حکومت میں میڈیا پر لگی قدغنوں اور پابندیوں کے ساتھ ساتھ اس پر ہونے والے جھوٹے پراپیگنڈے پر بھرپور تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ بات ہی اس موضوع پر کر رہے ہیں کہ ان کا میڈیا ٹرائل کیا گیا، وزرا نے ان کے خلاف پریس کانفرنسز کیں اور ان کی کردار کشی کی ایسی باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ جب وہ اپنے خلاف ہوا مقدمہ جیت بھی گئے تو ان کے اپنے رشتہ داروں نے ان کو کہا کہ تمہارے ساتھی ججز نے تمہارے حق میں ہی فیصلہ دینا تھا۔ اسی اثنا میں جمعرات کے روز دلائل دیتے ہوئے انہوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ پاکستان میں کئی اچھے صحافیوں کو نوکری سے نکلوا دیا گیا ہے۔
’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وفاق کہہ رہا ہے یہاں تجربہ کار صحافی بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ سماعت کو بالکل درست رپورٹ کریں گے لیکن اِس حکومت نے تمام اچھے صحافیوں کو تو نوکری سے نکلوا دیا ہے اور اگر میں ایک ایک کر کے نام لینا شروع کروں تو شام ہو جائے۔‘‘
اب کیا کیجئے کہ زیادہ تر صحافی جس وقت ان اداروں سے نکالے جا رہے تھے تو فواد چودھری صاحب اس وقت وزیرِ اطلاعات و نشریات بھی تھے۔ شاید انہوں نے سمجھا کہ یہ ان پر کوئی ذاتی حملہ ہے۔ حالانکہ فواد چودھری پر ذاتی حملے کی کوئی وجہ ہو نہیں سکتی۔ پاکستان میں میڈیا کس کے حکم پر چلتا ہے یہ یقیناً فواد چودھری صاحب کو بھی معلوم ہے اور قاضی فائز عیسیٰ کو بھی۔
’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی عوام کے ٹیکس پر پل رہا ہے لیکن وہ وزیرِ اعظم کی سیاسی تقریریں نشر کر رہا ہوتا ہے جب کہ پی ٹی وی کے ایکٹ میں سیاسی تقاریر نشر کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس موقع پر فوجی آمروں پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی پر تو میرے عزیز ہم وطنو کی تقریر بھی نشر ہو جاتی ہے کیونکہ وہ بندوق کے زور پر تقریر نشر کروا لیتے ہیں لیکن دوسری طرف کا نُقطہ نظر نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ ایک فون آئے گا کہ یہ کیا چلا رہے ہو بند کرو اِس کو اور پھر سب کُچھ بند ہو جائے گا۔ کسی کو جرات نہیں ہوگی چلانے کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کندھے اُچکاتے ہوئے طنز کیا کہ مُجھے نہیں معلوم وہ فون کون کرتا ہے کہ بند کرو یہ سب۔ اسد علی طور اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ یہ الفاظ سن کر کمرہِ عدالت میں سب صحافیوں کے چہروں پر مُسکراہٹ آ گئی کیونکہ ہم تو جانتے تھے میڈیا کو دھمکی آمیز فون کِس ادارے سے آتے ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے کچھ غلط نہیں کہا۔ پاکستان میں صحافتی ادارے نہ صرف قومی مفاد وغیرہ کے نام پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ حقیقت فراموش کرتے ہوئے کہ سب سے بڑا قومی مفاد عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے میں ہے، بلکہ ساتھ ساتھ میڈیا مالکان کے ذاتی مفادات بھی حقائق کی عوام تک ترسیل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ گذشتہ ایک برس کے دوران جسٹس قاضی فئز عیسیٰ کے خلاف جس قسم کے رقیق حملے کیے گئے ہیں، ایسا سلوک سپریم کورٹ کے کسی اور حاضر سروس جج کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ جسٹس افتخار چودھری جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف مزاحمت کی، انہیں بھی میڈیا نے ہیرو بنا کر پیش کیا تھا۔ دوسری جانب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نہ صرف وزرا کی جانب سے پریس کانفرنسز کی گئیں بلکہ انہیں سوشل میڈیا پر کرپٹ کہا گیا۔ ایک مولوی صاحب نے تو انہیں یوٹیوب پر ویڈیو بنا کر باقاعدہ گالیوں سے نوازا اور انہیں پھانسی دے کر ان کی لاش کو چوک میں لٹکانے تک کی بات کی لیکن اس مولوی کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ان کے خلاف پریس کانفرنسز ریاستی ٹی وی چینل پر براہ راست دکھائی جاتی رہیں۔ یہاں تک کہ جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پارٹی اراکین کو 50، 50 کروڑ روپے بطور ترقیاتی فنڈ دینے کے غیر آئینی عمل کا آغاز کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر نوٹس لیا۔ اس کیس کے فیصلے میں نہ صرف چیف جسٹس نے وزیر اعظم کی بجائے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیصلہ دے دیا بلکہ حیرت انگیز طور پر یہ فیصلہ بنچ میں موجود دیگر ججز سے پہلے میڈیا میں لیک ہو گیا۔ اس دوران ایک موقع پر قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو یہ کہا تھا کہ انہیں یہ اطلاع واٹس ایپ پر موصول ہوئی تھی اور وہ اس کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف واٹس ایپ جج کا ٹرینڈ بنایا گیا۔ حالانکہ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ وزیر اعظم نے واقعی ترقیاتی فنڈ بانٹے اور یہ بات ایک PTI رکن اسمبلی نے خود میڈیا کو بتائی۔ یوں بھی واٹس ایپ جج کس کو اور کیوں کہا جاتا ہے، اب تو ساری دنیا جانتی ہے۔ لیکن الزام لگا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر۔
ایک موقع پر تو ان پر یہ الزام تک لگا دیا گیا کہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی را کا بیانیہ آگے برھا رہے ہیں۔ اور جس وقت یہ سب کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہو رہا تھا، ظاہر ہے کہ بطور سپریم کورٹ کے ایک جج کے قاضی فائز عیسیٰ اپنے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کا میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی جواب بھی نہیں دے سکتے تھے۔ یاد رہے اس ٹرینڈ پر حکومتی جماعت کی پسندیدہ ویب سائٹس اور کچھ یوٹیوب چینلز پر رپورٹس کر کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کیچڑ اچھالی گئی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ خود وزیر اعظم عمران خان نے ان کا نام لیے بغیر الزام لگایا کہ اپوزیشن انہیں چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس محض سنیارٹی کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اس کا ذکر خود قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل کے دوران کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اب وزیرِاعظم عمران خان کی طرف رُخ کیا اور کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اب ایک جج کو اوپر لانا چاہتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مائی لارڈ وہ جج میں یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ میں تو سب اپنی سنیارٹی کے لحاظ سے اپنے نمبر پر ہی اوپر آتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو یہ بھی نہیں پتہ؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دُنیا بھر میں پاکستان کا وزیرِ اعظم واحد سربراہِ مُملکت ہے جو گھر سے روز ہیلی کاپٹر پر دفتر جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ میں صرف فیملی لاز اور ریونیو کے مُقدمات سُنوں۔
اور اس وقت بھی سوشل میڈیا پر یہ بات بڑے systematic انداز میں پھیلائی جا رہی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپز ملز کیس بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے سامنے کیس ہی یہ تھا کہ اس کیس کو دوبارہ کھول دیا جائے، بند تو یہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اور پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ محض تین رکنی بنچ کا حصہ تھے اور یہ ایک متفقہ فیصلہ تھا۔ اس بنچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم تھے اور ان کے ساتھ تیسرے جج مظہر عالم میاں خیل تھے۔ اس کیس میں کوئی جج میرٹ پر اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا حکم دے ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ بنچ نے جو بھی سوال اٹھایا، نیب کے تفتیشیوں کو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ایکسپریس ٹربیون کے مطابق جب نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر سے اس بابت پوچھا گیا جو کہ اس وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے تو انہوں نے بھی کہا کہ نیب کو یہ تک علم نہیں تھا کہ ملزم نے غلطی کیا کی ہے۔ انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی حیثیت کیا ہے۔ ان کے پاس تو یہ اعترافی بیان موجود تک نہیں تھا۔
یہ ہے وہ طریقہ کار جس سے ایک معزز جج کے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ اس مقدمے کی کارروائی کو ٹی وی پر براہ راست دکھائے جانے سے متعلق دلائل پر جو بھی فیصلہ کرے، اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا پر جن پابندیوں اور پراپیگنڈے کی طرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اشارہ کیا ہے، اس میں سے کسی ایک لفظ سے بھی اختلاف کرنا آسان نہیں۔