مگر پھر ایک دو برس بعد ہی اسوقت کی محفوظ ہاتھوں والی سرکار صدر پرویز مشرف نے "غداروں" کی ہی حکومت کا کام دہراتے ہوئے واجپائی سے آگرہ میں مذاکرات کئے، جس میں اہم امور پر پیش رفت بھی ہوئی، معاملات بھی آگے بڑھے، گھر کو ٹھیک کرنے کی باتیں بھی ہوئیں، خطے میں امن کی باتیں ہوئیں، فن اور فنکاروں کا تبادلہ ہونے لگا، کرکٹ کے تاریخی مقابلے ہوئے، غرض یہ کہ محبتوں کا خوب اظہار ہوا اور یوں محفوظ ہاتھوں کے ساتھ "غدارانہ" اقدامات خود بخود حب الوطنی کی شکل اختیار کرتے ہوئے خوب روشن ہوئے۔
ان معاملات پر بہت سی باتیں اور سہی لیکن تاریخی تناظر میں یہی ایک اصول سمجھ میں آتا ہے کہ اگر یہ اقدامات کسی سویلین کے ہاتھوں ہونے جا رہے ہوں یعنی گھر کے باشندوں کے ہاتھوں تو یہ سب اقدامات غدارانہ کہلائے اور دہرائے جائیں گے، گیت بنا کر دن رات سنائے جائیں گے۔ اور کیمیائی فارمولوں کی طرح حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر یہی اقدامات کرتے ہوئے محفوظ ہاتھوں کا استعمال ہو رہا ہو تب بھی کسی نہ کسی طرح باشندے ہی غدار قرار پاتے ہیں۔ عجب پھوٹے نصیب ہیں بیچاروں کے، کچھ کریں تو غدار، کچھ نہ کریں تو غدار۔ ایک فلم کا سین کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بولنے پر پیٹتا ہے یہ کہہ کر کہ باپ کے آگے زبان لڑاتا ہے۔ اور جب بیٹا چپ ہوجاتا یے تو یہ کہہ کر پیٹتا ہے کہ چپ کیوں ہے باپ کو جواب کیوں نہیں دیتا۔ یعنی دونوں باتوں میں بیٹا ہی غدار۔
آج کل چرچہ یے کہ گھر کو ٹھیک کرنے کی جو بات کی گئی ہے وہ چند سال پہلے سابق وزیر اعظم نے بھی کی تھی، ہمسائے سے دوستی کی بات، امن کی بات وغیرہ وغیرہ۔ جی بالکل، کی ہوگی ضرور کی ہوگی، مگر طے کردہ اصولوں کے مطابق آج کی بات سے اس بات کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں باتوں کا موازنہ کرنا بھی ایک غدارانہ رویہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ جس کی سختی سے مذمت کی جانی چاہئے اور اس حوالے سے سخت اقدامات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کے خلاف غداری کا ایک اور مقدمہ درج کردینا چاہئے۔