پاکستان یعنی پنجاب میں ہر برائی افغانوں اور پختونوں کی پیدا کردہ ہے۔ ان کو دودھ میں پانی ملانا اور اللہ کے فضل سے آج کل یوریا اور دیگر کیمیکلز سے خالص دودھ بنانا بھی افغانوں اور پختونوں نے سکھایا ہے۔ لاہور کے ریستورانوں میں گاہک کو مٹن کے نام پر گدھے کا گوشت کھلانے کا ہنر سکھانے کا سہرا بھی ان ناہنجاروں کے سر ہے۔ مغلوں سے لے کر انگریزوں اور پاکستانی جرنیلوں تک ہر غاصب کے وفادار بن کر اپنی سرزمین پر ان کی حکمرانی قائم کرنے میں ان کی سہولت کاری کرنے کا گُر بھی پختونوں نے ان کو بتایا تھا۔
زمان پارک کے اردگرد چند پختونوں کی موجودگی کو بہانہ بنا کر گزشتہ چند روز سے پنجاب کے سیاسی لیڈروں اور میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ بھائی وہاں جو بھی آتا ہے اور جہاں سے بھی آتا ہے وہ صرف تحریک انصاف کا کارکن یا ہرکارہ ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی علاقے کا نمائندہ ہوتا ہے اور نہ کسی نسل کا۔ یہ کسی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہئیے کہ ایک سیاسی جماعت جس کو ایک پورا صوبہ 9 سالوں کیلئے حکمرانی کیلئے دیا گیا ہو اور اب وہ وہاں سے دو تین سو بندے احتجاج کیلئے لاہور نہ پہنچا سکے۔ اب اگر پولیس ایکشن کے دوران مقامی کارکنان ادھر ادھر ہونے میں کامیاب ہو گئے اور غیر مقامی وہاں پولیس کے ہاتھ چڑھ گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب کچھ چند پختونوں یا گلگت بلتستانیوں کا کیا دھرا ہے اور آپ ان کو بیرونی حملہ آوروں اور دہشت گردوں کے طور پر پیش کریں۔
پنجاب کی مقتدر اشرافیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو ٹی ٹی پی کے کارکن کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے اور لاہور میں ان کی موجودگی پر تو اعتراض ہے لیکن گزشتہ پچاس برسوں سے پختونوں کی سرزمین کو اپنی سٹریٹیجک ڈیپتھ پالیسی اور ان سے جڑے مفادات کے حصول کیلئے میدان جنگ بنانے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے لیکن الزام پھر بھی مقتول پر۔ کشمیر آزاد کرانے سے لے کر افغانستان میں امریکی جہاد، صوفی محمد سے لے کر فضل اللہ تک اور ایم ایم اے سے لے کر پی ٹی آئی تک ہر مذہبی، جہادی اور سیاسی ڈرامے کا سٹیج پختونوں کے وطن ہی کو بنایا گیا۔
پی ٹی آئی کی 9 سال تک قائم رہنے والی عسکری پشت پناہی والی حکومت نے صوبہ خیبر پختونخوا کو ایک ہزار ارب سے زیادہ کا مقروض بنایا لیکن پھر بھی پنجاب کے میڈیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ خیبر پختونخوا کے باسیوں کے انگنت مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، لیکن اپنی اسٹیبلشمنٹ کے گناہوں اور جرائم کا طوق ان کے گلے میں ڈالنے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
اب تو یہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جب پنجاب کا وزیر اعلیٰ تھا تو ببانگ دُہل اس نے طالبان سے اپیل کی تجہ کہ ہمارا اور آپ کا نظریہ و مقصد ایک ہے لہٰذا پنجاب میں دہشت گردی نہ کریں۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پختونخوا میں جو بھی کرنا ہے کریں لیکن پنجاب کو بخش دیں۔ اس جماعت نے ماضی میں پنجاب کی مختلف شدت پسند مذہبی جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ سیاسی و انتخابی اتحاد اور ان کی حمایت حاصل کرنے میں عارمحسوس نہیں کی لیکن اب اقبال کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور لاہور میں موجودگی سے ان کو دہشت گردی کی بُو آتی ہے۔
لاہور میں صوفی محمد کے سابق ساتھی کی سیاسی احتجاج میں موجودگی تو قابل اعتراض ہے لیکن پختونوں کی سرزمین پر ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا کردہ دہشت گردی اور شدت پسندی قابل قبول ہے کیونکہ اس کا بینیفشری پنجاب کی سیاسی و عسکری اشرافیہ ہے۔ ایک طرف تو پنجاب کے سیاسی و میڈیائی اشرافیہ کے ایک دھڑے کا یہ بھی ماننا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سینہ زوری کے پیچھے اسٹیبلیشمنٹ کا ایک گروہ ہے جس کا سرغنہ جنرل فیض حمید ہے لیکن دہشت گرد اور شدت پسند کو پختون ہی دکھانا ہے۔ ایک طرف تو ایک سیاسی جماعت کے چند سیاسی دیہاڑی داروں کو ایک پورے علاقے اور قوم کا نمائندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف اس قوم کے حقیقی اکابرین اور نمائندوں کو مہاجر اور پنجابی میڈیا نے ہمیشہ سے یا بلیک آؤٹ کیا ہے اور یا بطور غدار پیش کیا ہے۔
پنجاب کے میڈیا کو کم از کم شہباز شریف کو محمود خان اچکزئی کی وہ تقریر یاد دلانی چاہئیے جس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں اپیل کی تھی کہ جنرل باجوہ کی سلائی کی ہوئی شیروانی مت پہنیں۔ اگر وہ اور پی ڈی ایم محمود خان اچکزئی کی اس نصیحت پر عمل کرتے تو آج ان کو اس سیاسی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔