بی بی سی کے لئے لکھے گئے اپنے اس کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے وفاقی کابینہ میں اختلاف رائے کی کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ایوب کابینہ میں محمد شعیب اور ذوالفقار علی بھٹو، بھٹو کابینہ میں شیخ رشید اور کوثر نیازی، نواز کابینہ میں چودھری نثار اور خواجہ آصف کے درمیان اختلافات مستقل موضوع رہے۔
ایک دو ماہ پہلے صحافتی اشرافیہ یعنی چینل مالکان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ حکومت کی دو وزارتیں، خارجہ اور داخلہ بہت اچھی چل رہی ہیں۔ ملک کے طاقتور ترین ادارے کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ پر اعتماد کا سر عام اعلان بہت سے اشارے دے گیا مگر وفاقی کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی میں الیکشن سے پہلے جو قربت تھی وہ بعد ازاں کئی غلط فہمیوں میں بدل گئی۔
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ بد خواہوں نے وزیر اعظم کو شکایت لگائی کہ میٹھا بول بولنے والا سرائیکی شاہ محمود آپ کا متبادل بننا چاہتا ہے تو دوسری طرف شاہ محمود قریشی کو بھڑکایا گیا کہ جہانگیر ترین نا اہل ہونے کے باجود کابینہ کو مشورے دے رہا ہے۔
ان دو طرفہ تحفظات کے نتیجے میں سیاسی دوری پیدا ہو گئی لیکن شاہ محمود اتنے سمجھ دار ہیں کہ انھوں نے ان اختلافات کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی کوشش کی اور ان کوششوں میں وہ اس حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ آجکل وہ اسد عمر، ذوالفقار بخاری اور اعظم خان کے ہمراہ وزیراعظم کی کچن کابینہ میں شامل ہیں۔
دوسری طرف وزیر داخلہ بریگیڈیر اعجاز شاہ آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر، پنجاب کے ہوم سیکر ٹری اور پھر انٹیلی جنس بیوروکے سربراہ رہے اور اس حوالے سے انھیں فوج، بیورو کریسی اور سیاست تینوں شعبوں کا تجربہ ہے مگر وفاقی کابینہ کے دو تین اجلاسوں میں وزیراعظم نے سب کے سامنے ہی ان سے سخت باز پرس کر لی۔ ظاہر ہے یہ بات اعجاز شاہ صاحب کو پسند نہیں آئی اور انھوں نے اس رویے کا گلہ بھی کیا۔ وزیر اعظم اپنے اس اقدام سے شاید یہ اشارہ دے رہے تھے کہ آپ کسی اور کے فیورٹ ضرور ہونگے مگر میرے نہیں۔