واضح رہے کہ ڈاکٹر سید عالم محسود اس سے پہلے اولسی تحریک نامی تنظیم سے وابستہ تھے جس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ شامل تھے اور انھوں نے مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف پر الزام لگایا تھا کہ وہ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری میں چھوٹے صوبوں کے حقوق عصب کررہے ہیں جس کے بعد سے وہ مسلسل میڈیا پر آتے رہے مگر بعد میں وہ پشتون تحٖفظ مومنٹ سے وابستہ ہوگئے۔
ڈاکٹر سید عالم محسود نے اپنے درخواست میں کہا کہ میں حیات آباد پشاور کا رہائشی ہوں اور شعبے کے لحاظ سے ایک سرجن ہو اور اس کے ساتھ محقق اور کالم نگار ہوں اور آج کل پشتون تحفظ مومنٹ سے وابستہ ہوں۔ انھوں نے پولیس کو جمع کرائی گئی اپنی درخواست میں کہا کہ نامعلوم نمبرز سے نہ صرف ان کو دھمکیاں دی جارہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کوبتایا جاتا ہے کہ تمھارا وقت اب ختم ہوگیا اور تم نے تمام حدیں پار کردی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ دھمکی دینے والے فون پر بتاتے ہیں کہ تمھارے گھر اور گاڑی کا نمبر یہ، یہ ہے جبکہ اس کے ساتھ ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمھارے بچے فلاں فلاں سکول میں پڑھتے ہیں اور تم نے سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔
ڈاکٹر محسود نے اپنے درخواست میں کہا ہے کہ قانون کے مطابق زندگی گزارنے والا ایک شہری ہوں اور گزشتہ کئی سالوں سے ٹیکس دیتا ہوں جبکہ میں کسی بھی انتہاپسندانہ سرگری میں ملوث نہیں رہا اور جو بات بھی کی ہے وہ تحقیق کے مطابق کرتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ان کے بہت سارے ساتھیوں کو قتل کیا گیا ہے اور اس انجام سے دوچار ہونے سے پہلے میں حکومت اور پولیس کے نوٹس میں یہ بات لارہا ہو کہ مجھے اور میرے خاندان کو ائین پاکستان کے مطابق تحفظ دیا جائے اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
یاد رہے رواں ماہ پی ٹی ایم کے رہنما عارف وزیر کو بھی وانا میں انکی رہائشگاہ کے قریب افطار سے کچھ دیر قبل گولیاں مار کے قتل کر دیا گیا تھا۔