اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا کہ ہم منتخب نمائندے ہیں اور ہم نے واپس عوام میں جانا ہوتا ہے۔ ہمارا احتساب عوام بھی کرتے ہیں اور ادارے بھی کرتے ہیں۔ ہم نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو ایک بیگ لے کر آئے اور جس دن اقتدار ختم ہوا، بیگ اٹھا کر واپس چلے گئے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایسے لوگ ہماری کابینہ کا حصہ ہوں۔
غلام سرور خان کی شکایت بالکل جائز ہے۔ یوں تو 2018 میں منتخب ہونے والے تقریباً ہر ممبر اسمبلی ہی کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے پر سوالیہ نشان ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان منتخب لوگوں نے کل کو دوبارہ عوام میں جانا ہے اور انہیں عوام کے آگے اپنی کارکردگی کے لئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ جب کہ وہ ٹیکنوکریٹ حضرات جو مختلف طریقوں سے کابینہ کے ارکان بن چکے ہیں، یہ عوام کے آگے خود احتسابی کے لئے خود کو پیش نہیں کریں گے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کابینہ کے اراکین کی کل تعداد 50 ہے جن میں سے 32 منتخب اور 18 غیر منتخب ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ تمام 18 کے 18 غیر سیاسی لوگ ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سیاسی افراد اپنے حلقے کے عوام میں پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے اور اسی وجہ سے آج غیر منتخب ہیں۔ لیکن غیر سیاسی افراد کی بھی ایک بڑی تعداد اس کابینہ میں شامل ہے جن میں مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر بابر اعوام، ملک عبدالرزاق داؤد، بابر اعوان، شہزاد اکبر، زلفی بخاری، معید یوسف، ڈاکٹر ظفر مرزا، لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، تانیہ ایدرس اور ڈاکٹر ثانیہ نشتر نمایاں ہیں۔
اس کے علاوہ ترجمان علیحدہ ہیں۔ عمران خان صاحب ماضی کی حکومتوں پر بڑی کابینہ رکھنے پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں لیکن خود انہوں نے 50 اراکین پر مبنی کابینہ بنا رکھی ہے، اور وہ بھی ایسے لوگوں پر مشتمل جن کے بارے میں خود ان کے اپنے وزرا کہہ رہے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔
لیکن کیا یہ معاملہ محض کابینہ میں موجود اراکین کے غیر منتخب ہونے تک محدود ہے یا پھر کچھ اور بھی ہے جس کی پردہ داری ہے؟ گذشتہ کچھ روز سے کابینہ میں رد و بدل کی خبریں بھی نمایاں ہیں اور غلام سرور خان کی جانب سے اس بیان کو وزیر اعظم کو آنکھیں دکھانے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ غلام سرور خان اکیلے وزیر نہیں ہیں جنہوں نے یہ بات کی ہے۔ اگلے روز وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری بھی وزیر اعظم کی لاک ڈاؤن پالیسی کے حوالے سے اپنی مختلف رائے کا اظہار کر چکے ہیں، جب انہوں نے کہا تھا کہ سائنسدانوں کے مطابق لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ درست نہیں۔
منگل ہی کی شام وزیرِ خوراک سید فخر امام نے بھی ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کے دشمن نمبر ایک نواز شریف کی سیاست میں واپسی کا ذکر بھی کر ڈالا۔ فخر امام نے کہا کہ نواز شریف جلد سیاست میں واپس آ جائیں گے اور ان کا سیاست سے فی الحال دور ہونے کا فیصلہ وقتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک حکمتِ عملی ہوتی ہے اور ایک پالیسی۔ شریف خاندان فی الحال حکمتِ عملی کے تحت خاموش ہے لیکن وہ سیاست میں لمبے عرصے تک رہنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اس منصوبے میں وہ کامیاب بھی ہوں گے کیونکہ ان کی پوری جماعت ان کے ساتھ ہے۔
فخر امام سے پوچھا گیا کہ نواز شریف اس وقت منظرِ عام پر کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ 1999 اور پھر 2007 میں نواز شریف نے خود کو منظرِ عام سے غائب کر لیا تھا لیکن وہ پھر واپس آئے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کرونا وائرس پر حکومتی کارکردگی سے متعلق سوال پر بھی کچھ مبہم سا جواب دیا کہ وقت تو گزر جاتا ہے لیکن بعد میں کارکردگی پر سوال ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں تین وزرا کا اپنی ہی حکومت کے فیصلوں پر تنقید کرنا یا پھر اپنے مخالفین کے بڑے سمجھدار، زیرک ہونے اور سیاست میں جلد واپسی کے بارے میں باتیں کرنے سے کچھ عجیب و غریب سے سگنل مل رہے ہیں۔ اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ وزرا اپنی اپنی کرسیاں بچانے کی خاطر کوئی پیش بندی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ گو کہ سینیئر تجزیہ کار اور زیرک صحافی نجم سیٹھی نے اپنے ایک حالیہ ایڈیٹوریل میں لکھا ہے کہ فی الحال عمران خان محفوظ پوزیشن میں ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اور دور کی کوڑی لانے والے ان وزرا کے بیانات کو بھی مئی کے بعد کے منظرنامے کے حوالے سے اہم قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے اہم یہ ہے کہ ملک کے سینئر صحافی اور حکومتوں کے جانے کے حوالے سے ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کرنے والے سہیل وڑائچ عمران خان کی حکومت کے حوالے سے جون کے مہینے تک مہلت اور اسکے بعد کوئی معجزہ نہ ہونے کی صورت میں اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں۔