صحافی اعزاز سید نے اس حوالے سے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ واجد ضیا کی سربراہی میں شوگر کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں جہانگیر ترین کی کمپنی جے ڈی ڈبلیو سمیت 10 شوگر ملز مالکان پر ٹیکس چوری، غیر رجسٹرڈ افراد کو چینی کی فروخت اور مارکیٹ میں مصنوعی طریقے سے چینی کی قیمتوں میں اضافے جیسے سنگین الزامات عائد کر دیے ہیں۔ رپورٹ کل حکومت کو پیش ہوگی۔
دوسری جانب ایکسپریس نیوز نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایف آئی اے نے چینی سکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل کر لیا ہے، جس کی رپورٹ آئندہ چند روز میں وزیراعظم عمران خان کو بھی بھجوا دی جائے گی، رپورٹ میں شوگر مل انتظامیہ کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی سکینڈل کی تحقیقات میں پہلی بار فرانزک اڈٹ کروایا گیا، جس میں بڑے بڑے انکشافات سامنے آئے ہیں، شوگر مافیا کا تعلق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے، یہ مافیا آج تک پالیسی ہی نہیں بنانے دے سکا، اسٹیٹ بینک اور مسابقتی کمیشن سمیت دیگر ادارے بھی ملوث ہیں، تحقیقات شروع ہوئی تو سب ایک ہوگئے، تحقیقاتی کمیشن کے کئی افسران کو سنگین نتائج کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی پیشکش بھی کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر مافیا کسانوں کا استحصال بھی کرتے ہیں، کسانوں سے گنا خریدنے کے بعد کئی کئی سال اربوں روپے کی ادائیگی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے کسان مجبوری میں گنا فروخت کرتے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی بنانے کےعمل سے نکلنے والے بگاس پھوک شیرا، مولاسیسز اور گار کو فروخت کر کے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں، گنے سے چینی کے علاوہ دیگر بننے والی مصنوعات کو بیرون ممالک بھی فروخت کیا جاتا رہا ہے، شوگر مل مالکان نے بھی چینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس عمل کے دوران گنے سے بننے والی دیگر مصنوعات سے اربوں روپے کمائے لیکن ان اشیا کی فروخت کا اکثر شوگر مل مالکان ریکارڈ ہی نہیں رکھتے، ان اشیا کی فروخت پر ٹیکسوں کی مد میں اربوں کا فراڈ کیا جاتا ہے۔
ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر مافیا تمام اخراجات نکال کر بھی فی کلو 10 سے 15 روپے کماتے ہیں، شوگر مافیا کو سبڈی دینے کی ضرورت نہیں، جتنی سبسڈی دی جاتی ہے اگر حکومت خود امپورٹ کرے تو سستی چینی پڑتی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الہیٰ کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔