سو موٹو نوٹس میں اچنبھے کی تو نہیں لیکن دلچسپی کی بات یہ ضرور ہے کہ اس میں ایک جج صاحب تو خود چیف جسٹس تھے۔ جسٹس نقوی جو کہ پہلے ہی نوٹ لکھ کر اپنا مائنڈ بتا چکے ہیں، وہ بھی اس بنچ کا حصہ بنے۔ یاد رہے کہ موصوف اس بنچ میں بھی شامل تھے جس نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ خصوصی عدالت ہی کو غیر قانونی قرار دے کر کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔
پھر اس بنچ میں جسٹس ایم علی مظہر بھی شامل تھے جن کے سپریم کورٹ میں آنے پر سندھ بار کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا کیونکہ یہ سینیئر ترین جج نہیں تھے اور سپریم کورٹ نے روایات کا پاس نہ کرتے ہوئے ان کو سپریم کورٹ میں elevate کر لیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر تو مطالعۂ پاکستان کے پرچے میں لازمی سوال کی طرح ہر اہم بنچ کا حصہ ہوتے ہی ہیں، چیف جسٹس خواہ جسٹس گلزار رہے ہوں یا اب جسٹس عمر عطا بندیال۔ جسٹس اعجاز الاحسن وہی جج ہیں جو پاناما بنچ کا حصہ بھی تھے اور انہیں پاناما کیس کا نگران جج قانون کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا، اور یہ جسٹس ارشد ملک کو مبینہ طور پر ان کی نامناسب ویڈیو دکھا کر بلیک میل کرنے کے معاملے سے بالکل بے خبر رہے تھے۔ جسٹس منیب اختر اور جسٹس عمر عطا بندیال ان چار ججز میں سے ہیں جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
یہ تو تھی بنچ کی تشکیل۔ اب ذرا سپریم کورٹ کا ماضی کا کردار دیکھ لیجیے کہ اب سے چند ماہ قبل تک اس ملک میں جس دیدہ دلیری سے ان تمام اداروں کو سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور زبانیں بند کروانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا، اس پر تو سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ سابق FIA سربراہ بشیر میمن نے دعویٰ کیا کہ ان کو عمران خان نے سیاسی مخالفین کے خلاف کیس بنانے کے لئے دباؤ ڈالا، سپریم کورٹ خاموش رہی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان حکومت نے ان پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کے لئے دباؤ ڈالا۔ برادر جج کے خلاف ہونے والی مبینہ سازش کے اس انکشاف کے باوجود سپریم کورٹ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ نیب کے سربراہ کی سر سے پاؤں تک چومنے والی ویڈیوز سامنے آئیں، عدالت خاموش رہی۔ ارشد ملک کے معاملے پر اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں لیکن کیا کریں کہ معاملہ نچلی عدالتوں کا ہے، لیکن یہاں وہی سپریم کورٹ ہے جو نچلی عدالتوں سے کیسز کی تفصیلات اپنے پاس منگوا رہی ہے۔ جب رانا ثنااللہ کے خلاف ANF نے 15 کلو ہئروئن ڈال دی تو سپریم کورٹ خاموش رہی اور جب وہ اس مقدمے میں ضمانت پر رہا ہو گئے تو بھی معزز عدالت کو خیال نہ آیا کہ یہ تو سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش ہے۔ وہ جج جو رانا ثنااللہ کی ضمانت لینے والے تھے ان کا ایک واٹس ایپ پیغام کے ذریعے تبادلہ کر دیا گیا، سپریم کورٹ کو مقدموں پر اثر انداز ہوتا ہوا کوئی دکھائی نہ دیا۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے عمران خان کے بنی گالا میں غیر قانونی محل کا معاملہ سامنے آنے اور اس میں عمران خان کی جانب سے جھوٹا کاٖغذ پیش کرنا ثابت ہو جانے کے باوجود اس پراپرٹی کو ریگولرائز کرنے کا اختیار خود عمران خان کو سونپ دیا تھا۔ جب عمران خان اور صدر عارف علوی اپنے خلاف انسدادِ دہشتگردی کیسز سے عدم پیروی کی بنیاد پر اپنی ہی حکومت میں رہا ہو گئے تو یہ سپریم کورٹ خاموش رہی۔ ایک فوجی افسر ایک 'ہائی پروفائل کیس' میں جج کو مبینہ طور پر ہدایات دینے کے بعد پچھلے دروازے سے فرار ہوتے پکڑے گئے، معزز سپریم کورٹ اور نگران جج صم بکم کی عملی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ اور یہاں محض خدشے کی بنیاد پر سو موٹو لیا سو لیا، پانچ ہفتے قبل بننے والی حکومت سے دو، دو سال سے خالی پڑی آسامیوں پر بھی جرح شروع کر دی۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس سب کے باوجود ہمارے معزز جج صاحبان ناراض ہوتے ہیں کہ انہیں سیاسی طور پر متنازع کیوں سمجھا جاتا ہے۔ می لارڈ، آخر کوئی وجہ ہے کہ پاکستانی نظامِ انصاف دنیا میں 139 میں سے 130ویں نمبر پر آتا ہے۔