دراصل غربت اور بے روزگاری کیساتھ ساتھ شناخت کے بحران میں مبتلا پاکستانی یا ہندوستانی جب امریکہ، یورپ یا مشرقِ وسطی میں روزگار کی غرض سے ہجرت کر جاتے ہیں تو اپنے ابتدائی سماجی رابطوں میں ہی شناخت کا سوال ایک بار پھر اُن کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ گویا بقول منیر نیازی:
اِک اور دریا کا سامنا تھا مُنیر مُجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا
سچ تو یہ ہے کہ ہر دو ممالک میں متفرق قومیتیں آباد ہیں اور مذکورہ بالا افراد کی اجتماعی قومی شناخت کے علاوہ اپنے ملک کے اندر بھی ان کی کوئی نہ کوئی مادری زبان، ثقافت، آبائی وطن اور شناخت ہوتی ہے، جسے وہ بہت عزیز رکھتے ہیں۔
لیکن نئی شہریت اختیار کرتے ہی ایک بڑے سماجی دائرے میں ان کی آبائی، لسانی اور علاقائی شناخت قدرے کم اہم اور بعض صورتوں میں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ماسوائے گھریلو بول چال کے، زیادہ تر لوگ آپس میں ہندی یا اردو میں ہی بات چیت کرتے ہیں۔ شناختی خلا پر کرنے کیلئے ان کی اجتماعی قومی اور مذہبی شناخت غالب شناخت کے طور پر اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے اور وہ عموما پاکستانی یا ہندوستانی اور ہندو یا مسلمان کے طور پر جانے جاتے ہیں یا جانے جانا پسند کرتے ہیں۔
اپنے پس ماندہ خاندان کی کفالت اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالنے کیساتھ ساتھ اب وہ ملکی معاملات میں اپنی رائے بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پیسہ ہے جو وہ اپنے خاندانوں کی کفالت یا سرمایہ کاری کیلئے اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ مِلا جُلا کر یہ رقم اربوں ڈالروں تک پہنچتی ہے۔ ہندوستان میں اس کا تخمینہ 87 ارب ڈالر اور گذشتہ برس پاکستان میں 31 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے جو دونوں ممالک کے زرمبادلہ میں خطیر اضافہ کرکے اُنہیں اپنی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں بھرپور مدد دیتا ہے۔ محنت سے کمائے ہوئے اپنے سرمائے کے محفوظ ہونے اور بڑھاتے رہنے کی فکر اُنہیں شب وروز دامن گیر رہتی ہے۔
گویا وِلایت میں دو چار سال یا زیادہ عرصے کی تگ ودو کے بعد جب وہ تھوڑا بہت روزگار اور گھر بار کی طرف سے مطمئن ہونے لگتے ہیں تو اُنہیں وہاں پر اپنی ثانوی شہریت کا احساس ستانے لگتا ہے، ناسٹلجیا، تنہائی اور دربدری تکلیف دیتی ہے تو وہ اپنے ملک اور قوم کے سیاسی اور معاشی مسائل کا خیال کرکے اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنا پر سوچتے ہیں کہ آخر ان کا ملک تمام تر وسائل اور صلاحیتیں رکھنے کے باوجود سماجی اور اقتصادی لحاظ سے اس قدر پسماندہ کیوں ہے؟ کیوں وہ دیار غیر میں فقط دو وقت کی روٹی کیلئے تنگی، تُرشی اور بیگانگیت میں جیون کرنے پر مجبور ہیں؟
تو وہ شعوری اور لاشعوری طور پر کسی نہ کسی پر اِلزام دھرنا چاہتے ہیں، کسی کو مُوردِ اِلزام ٹھہرانا چاہتے ہیں، تب اُنہیں ایسے سیاستدان بڑے بھلے معلوم ہوتے ہیں جو ناصرف اپنے آپ کو دیش بھگت، بے لوث اور موروثی سیاست سے آزاد ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں بلکہ ملک کے سماجی اور اقتصادی بحران کا واحد سبب اپنے مخالفین کی لوٹ مار، کرپشن اور نااہلی کو قرار دیں۔
ایسے پیچیدہ مسائل کے اسباب ومحرکات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کا نہ ہی ان کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ایسے امور میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ پرسیپشن، وائسز اور امیجز کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے جو لیڈر گڑگڑاتی، کڑکڑاتی اور گونجتی ہوئی آواز میں تقریریں جھاڑے، دین دھرم کی سربلندیوں کے نعرے لگائے،راتوں کو سنہرے خواب اور دنوں کو سبز باغ دکھائے اور اپنے اقتدار آتے ہی ماضی کے عظیم اسلامی یا ہندو دور کے پلٹ آنے کی وعید سنائے اور بیک وقت گم گشتہ داستانوی اور جدید دور ِانقلاب اور مغرب کے ترقیاتی ماڈل کو اس طرح خلط ملط کرے جیسے ایسے ہی ایک عالیشان دور حکومت کی کنجی اس کی جیب میں پڑی ہو تو حقائق کے برعکس بیرون ملک لوگ دیوانہ وار اُسے سراہنے لگتے ہیں۔ جب ایسے دورِ حکومت کے آجانے کی شرط اس کے اپنے دور اقتدار کے ساتھ گندھی مِتھی ہوں تو باہر مقیم شہری اُسے دیوتا یا مسیحا سمجھ کر تن من دھن سے اُس کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔
ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور حالیہ وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستان میں پی ٹی آئی اور سابقہ وزیراعظم عمران خان دونوں درج بالا تاثر قائم کرنے میں نسبتاً کامیاب رہے ہیں۔ دونوں کے دونوں داخلی، معاشی بحران کی ذمہ داری حزب اختلاف اور کسی ایک یا دوسری کمیونٹی پر تھوپتے ہیں اور دونوں ہی میڈیا امیجز، سیاسی ماڈلنگ، تصویر بازی، آواز سازی اور سوشل میڈیا کو استعمال کروانے کے ماسٹر ہیں۔
دونوں ہی عوام کے دلوں میں گھر کرنے کیلئے نت نئے ذرائع استعمال کرتے ہیں جس میں رقص وموسیقی بھی شامِل ہیں۔ دوسرے ذرائع نہ ہونے یا وقت کی تنگی کا شکار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے لئے یہ ہتھیار تیر بہ ہدف کام کرتا ہےـ عوامی زبان استعمال کرتے ہوئے جب وہ اپنے غیر ترقی یافتہ ہونے کی وجوہات اور ترقی یافتہ بننے کا سادہ ترین فارمولا عوام کے سامنے رکھتے ہیں تو جلد ہی نیم خواندہ اور سادہ لوح لوگ اُن پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ خوشحالی شکار کرنے کیلئے باہر جانے والوں کی اکثریت نیم خواندہ اور ناخواندہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سیاسی اور معاشی دَقیقہ فہمیوں تک نہ ان کی پہنچ ہوتی ہے نہ یارا۔ اُنہیں موٹی موٹی باتیں، تصویریں، شاٹس، امیجز، سیچویشنز اور میمز بہت اپیل کرتے ہیں۔
آرٹیکل پڑھنے اور باقاعدہ خبریں اور تبصرے سننے کی بجائے وہ زیادہ تر سوشل میڈیا کی زرد صحافت پر ہی اِعتماد کرتے ہیں۔ اور جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں بھی تو وہ یا تو اپنے ثانوی ملک کی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں یا کم از کم اپنے آبائی ملک کے رجعت پسند لیڈرز کے آمرانہ اور سطحی بیانیوں پر یقین نہیں رکھتے مگر چونکہ ان کی تعداد نسبتاً کم ہے اس لئے توجہ اور خاطر میں اکثریتی رائے ہی آتی ہے جس کے مطابق آج کل ہندوستان میں نریندر مودی اور پاکستان میں عمران خان کا طوطی بول رہا ہے۔
زیر بحث سیاستدانوں کے مقابل بہت سے روایتی سیاستدان نئی میڈیا تکنیکیں، بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں جبکہ مودی اور عمران خان جیسے کایاں رہنمائوں کی اندرون ملک اور بیرون ملک آئی ٹی ماہرین اور ماہر فوٹو گرافروں کی پوری پوری ٹیمیں ہیں جو ایک تو بَرق رفتاری سے ان کی طرح طرح کی تصاویر، انٹرویوز اور تقریروں کے تراشے بیک گرائونڈ کلر اور میوزیکل ایفیکٹس ڈال ڈال کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف طرح طرح سے مخالفین کی منفی تاثر دینے والی ویڈیوز اور فوٹو شاپڈ امیجز بنا بنا کر ان کے بارے میں رائے عامہ خراب کرتے رہتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا بشمول ٹیٹر، فیس بک اور اِنسٹا گرام کی اشتہار بازی پر یہ دونوں لیڈرز کروڑوں روپے ماہانہ خرچ کرتے ہیں۔
حقیقتاً نریندر مودی اور عمران خان دونوں کے دونوں، نیم خونداہ، بے مطالعہ، سطحی اور مذہبی انتہا پسند شخصیات ہیں جو شاید تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور خارجہ تعلقات کی ابجد سے بھی لا علم ہیں۔ خان صاحب تو اس معاملے میں کئی بالشت آگے ہیں۔ ماضی قریب تک وہ ایک بھی بامعنی اور مکمل جملہ نہیں بول سکتے تھے لیکن دوںوں کے دونوں ایک طرح کے خود ساختہ "سٹار" یا "ماڈل" ہیں جو اپنے آپ کو تخلیقی انداز واسلوب سے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ایک کرکٹ پلٹ مذہب فروش سیاستدان ہے اور دوسرا مسلمان مخالف، مسلم کش، راشٹریہ پسند اور ہندوتوا فروغ نیتا ہے۔
خان صاحب نے سیاست میں آنے اور وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد تک عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کچھ روایتی مگر کئی ایک نئے انداز بھی استعمال کئے مثلاً شلوار قمیض اور کھیڑی پہننا، خزاب لگے بالوں کا کچھ بکھرا ہوا اور کچھ سنورا ہوا سٹائل بنا کر بے نیازی دکھلانا، عوامی مقامات پر گریبان اور کف کھول کر سادہ منش اور عام آدمی نظر آنا، کبھی کبھار انتہائی غریب لوگوں کے ساتھ بازاروں یا لنگر خانوں میں تصویریں بنوانا، کچھ صحافیوں اور لکھاریوں سے اپنی سادگی، ایمانداری اور بالخصوص جرات اور جوانمردی کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں اور واقعات لکھوانا اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے آپ کو مقبول ترین اور وسیع الحیات آدمی ثابت کروانا۔
اس ضمن میں کعبۃ اللہ اور حرم شریف کی زیارت، صفاہ ومروہ کی سعی ہو یا حجر اسود کے بوسوں جیسے تمام امیجز بڑی آسانی سے ایک مسلمان کا دل موہ لیتے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ صرف ٹویٹر پر عمران خان کے فالورز کی تعداد ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ سے بڑھ کر ہے اور رئیل ٹائم یوٹیوب سبسکرائبرز کی تعداد 58 لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے، جو کسی بھی لیڈر کے فالورز سے کہیں زیادہ ہے۔
سرحد پار بھارت کا پردھان منتری نریندر مودی، برعکس عمران خان کے، انتہائی غریب اور پسماندہ کنبے اور پس منظر سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے اعلٰی و ارفع، پاکباز، پاک دامن، یوگا پسند یوگی ہونے اور اَدوّیتا پسند راسخ العقیدہ ہندو "امیج بلڈنگ" میں اعلیٰ پائے کا فنکار ثابت ہوا۔ ماتھے پر تِلک لگا، گیروے رنگ کا لباس اور کھڑاونج پہن کر، گنگا جمنا کنارے پوجا پاٹ کرنی ہو، رتھ یاترا کے ڈرامائی طائفے یا میلہ کمبھ میں شمولیت ہو، ہمالیہ میں 11000 فٹ کی بلندیوں پر کادرناتھ کی غاروں میں ظاہری کشٹ اور یوگا کرنا ہو یا سادھو صفت رنگ روپ بنانا ہو، وہ ایسے تمام اِمیجز بیچنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ہندو اسے سپرمین سے کم نہیں سمجھتے جو تمام مسائل پلک جھپکنے میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے (بلکہ مودی بطور سپرمین کارٹون سٹوری بھی بھارتی بچوں میں پاپولر ہے)۔
گودھرا حادثے کے بعد مسلمانوں پر الزام دھر کر چِتاؤں کی احمد آباد میں پریڈ کروانا ہو، بابری مسجد منہدم کروا کے مسلم تاریخ سے علامتی اِنتقام ہو یا پھر اُسی مقام پر رام مندر کی بُنیاد ڈال کر گیان دھیان کی سمادھی رچانا ہو، مودی ایسے تمام فنون میں مہارت رکھتا ہے۔ نریندرا مودی کے رئیل ٹائم ٹوئٹر فالؤرز کی تعداد دنیا کے کسی بھی سیاسی لیڈر سے بڑھ کر کوئی ساڑھے سات کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔
قصہ مختصر پاپولزم کے اس نئے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور مذکورہ بالا دونوں لیڈرز میڈیا اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال کا فن جانتے ہیں جو عام لوگوں کو زمینی حقائق سے دور خواب وفریب کی نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔