ایک ہفتہ قبل 12 مئی 2023 کو کراچی کی ملیر اور لانڈھی جیلوں میں قید 198 بھارتی ماہی گیروں کو حکومت پاکستان نے رہا کیا ہے۔ اب زاہدہ اور مریاں کو امید ہے کہ بھارتی حکومت گلابی اور احمد کے ساتھ ساتھ باقی پاکستانی ماہی گیروں کو بھی جلد رہا کر دے گی۔
اصغر، گلابی اور موسیٰ نا صرف ایک ہی گاؤں طالب رچھو ملاح تحصیل جاتی ضلع سجاول کے باسی ہیں بلکہ ان کے لکڑی اور مٹی سے بنے کچے گھروں کے آنگن بھی تقریباً سانجھے ہیں۔ گلابی کے دکھوں سکھوں کی ساتھی زمین پر بیٹھی ان کی بیوی زاہدہ نے اپنے پانچوں بچے جن میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں، کو اپنے ساتھ بٹھایا ہوا تھا۔ کہنے لگی؛ ان بچوں کی کفالت کون کرے گا، میں اکیلی ان کو کیسے سنبھالوں؟ ہمارے لوگ بے گناہ تھے، ان کو طوفان اور تیز بارش نے بھٹکا دیا، پتا نہیں کب رہائی نصیب ہوگی، میں تو اپنی معصوم بیٹیاں لے کر پیروں فقیروں کے مزاروں پر دعا کی لیے جاتی ہوں، ہو سکتا ہے ان بیٹیوں کے صدقے ہی گلابی کو رہائی مل جائے۔
زاہدہ کو پاکستانی حکومت سے شکایت ہے۔ وہ کہتی ہیں؛ انڈیا میں قید ہمارے ماہی گیروں کے لیے سرکار تو کچھ کرتی نہیں، 7 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے میں فصلوں کی کٹائی کا کام کر کے بچے پال رہی ہوں۔ زاہدہ نے گود میں بٹھائی ہوئی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی مہرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا؛ جب گلابی شکار کے لیے سمندر گئے تھے تو مہرو 3 ماہ کی تھی۔ اس نے اپنے 10 سالہ بیٹے ابراہیم کو ساتھ بٹھایا ہوا تھا، کہا یہ ابھی بچہ ہے مزدوری کرنے کی عمر کا نہیں، جب بڑا ہو گا تو میری مدد کرے گا۔
کم عمری کی شادی کا شکار ہونے والی 21 سالہ سجن کھیتوں میں مزدوری پر تھی۔ اس کے پاؤں، کپڑے اور بال مٹی سے بھرے پڑے تھے۔ اس کو بس یہ پتا تھا کہ ان کا شوہر اصغر کام پر گیا تھا اور انڈیا میں قید ہو گیا ہے۔ اڑھائی سال کے بیٹے سکندر اور 14 ماہ کے بیٹے قاسم کو پالنے کی ذمہ داری بھی ان پر ہے۔ وہ 250 روپے یومیہ مزدوری پر کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ سجن کے ہونٹوں پر دکھوں اور تکالیف نے خاموشی کی مہر لگا دی ہے۔ اس سے بولا نہیں جاتا۔
50 سالہ احمد ملاح (تھیمور) کو تقریباً ساڑھے 3 سال ہو گئے ہیں وہ انڈیا میں قید ہیں۔ 21 اکتوبر 2019 کو احمد کو انڈیا کی بحری فورسز نے سمندر میں گرفتار کیا تھا۔ احمد اپنی بیوی مریاں کو ساریالے کی فصل کی کٹائی پر چھوڑ کر خود سمندر میں جھینگوں اور کیکڑوں کا شکار کرنے کے لیے گیا تھا تو اپنے ساتھی مچھیرے حمزہ کے ساتھ پکڑا گیا۔ ان کی کشتی بھی انڈین بحری فورسز کے قبضے میں ہے۔ اگلے دن شام کو مریاں کو پتا چلا کہ ان کا شوہر احمد انڈین بحری فورسز کے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن، مریاں اپنے شوہر کی رہائی کا شدت سے انتظار کر رہی ہیں۔ مریاں بتاتی ہیں کہ لوگ افواہ پھلاتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، کہتے ہیں احمد انڈیا کی جیل میں مر گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں؛ احمد نے انڈیا سے رہائی پانے والے ایک پاکستانی ماہی گیر کے ہاتھوں اپنے بھائی کا نام اور موبائل نمبر لکھ کر ایک خط بھیجا تھا جو خط رہا ہونے والا کراچی کا ایک ماہی گیر اپنے گلے میں تعویز بنا کر انڈیا سے پاکستان لایا تھا اور احمد کے بھائی تک اس نے وہ خط پہنچایا تھا۔
خط دکھاتے ہوئے مریاں نے کہا؛ یہ دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ احمد زندہ ہے اور ایک دن رہا ہو کر آئے گا۔ مریاں نے بتایا کہ ایک بار احمد کا انڈیا میں ان کے وکیل نے بھائی سے فون پر بھی رابطہ کروایا تھا۔ مریاں کو سال، ماہ اور تاریخیں یاد نہیں تھے۔ انہوں نے بڑھتی مشکلات دیکھ کر اپنے سسرال کے گاؤں جڑیو تھیمور سے نقل مکانی کر کے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ماں باپ کے گاؤں اسحاق تھیمور میں آ کر بسیرا کیا ہے۔ اپنی جھونپڑی بنائی ہے۔ احمد کے 6 بچے ہیں۔ احمد کی قید کے ڈیڑھ سال بعد مریاں نے اپنی بیٹی شہنیلا اور بیٹے زاہد علی کی شادیاں کیں۔ زاہد کے ہاں جنوری 2023 میں بیٹا پیدا ہوا ہے جس کا دادی مریاں نے زوہیر علی نام رکھا ہے۔ مریاں کہتی ہیں اب میرا بیٹا زاہد اور میں مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔
پاکستان فشر فوک فورم کے وائس چیئرمین نور محمد ملاح گذشتہ 28 سالوں سے سندھ کے ساحلی علاقے میں مچھیروں کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم ہیں۔ فشر فوک فورم کی طرف سے ان کو انڈیا میں قید سندھ کے ساحلی علاقوں کراچی، سجاول اور ٹھٹھہ کے ماہی گیروں کی فہرست بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ نور محمد کے مطابق سندھ کے 94 مچھیرے انڈیا میں قید تھے جن میں سے 59 ٹھٹھہ اور سجاول کے باقی 35 ابراہیم حیدری اور علی اکبر شاہ ولیج کراچی کے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 94 مچھیروں میں سے 12 کو انڈیا سے رواں سال 27 جنوری کو رہا کیا گیا ہے۔
نور محمد ملاح کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکریک کا دیرینہ تنازعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک متنازع آبی حدود میں سرحد کا تعین نہیں کرتے جس کی سزا دونوں اطراف کے مچھیروں کو بھگتنی پڑتی ہے۔ نور محمد اپنے ٹوئٹر ہینڈل اور انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع سے ماہی گیروں کی گرفتاری اور رہائی کی تمام خبروں پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر پاکستانی ماہی گیر انڈیا میں گجرات کی راجکوٹ سینٹرل جیل اور جوائنٹ انویسٹی گیشن سیل میں بند ہوتے ہیں۔ نور محمد کا کہنا ہے کہ سرکریک کا تقریباً 70 کلومیٹر علاقہ بحر عرب کے قریب پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے بیچ واقع ہے۔
نور محمد کہتے ہیں کہ انڈیا میں نریندر مودی جب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے پاکستان میں قید ہونے والے انڈین ماہی گیروں کے خاندان کو ماہانہ 9 ہزار روپے دینا شروع کیے جو اب بڑھا کر 14 ہزار روپے کر دیے گئے ہیں۔ جبکے پاکستان کے انڈیا میں قید ماہی گیروں کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے ماہی گیروں کو گجرات سے واہگہ بارڈر لاہور پر انڈیا والے چھوڑتے ہیں جہاں ان کو پاکستانی ادارے ایک سے ڈیڑھ ماہ تک اپنی حراست میں رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت اتنا بھی نہیں کرتی کہ انڈیا کی قید سے آزاد ہو کر آنے والے ماہی گیروں کو لاہور سے اپنے گھر آسانی سے پہنچانے کا انتظام کرے۔ یہ کام ایدھی والے کرتے ہیں۔
زاہد ابراہیم بھٹی فشر مینز کوآپریٹیو سوسائٹی کے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور پاکستانی محمکہ خارجہ انڈیا کی قید میں موجود پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی کے لیے مودی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
احمد کی بیوی مریاں ملکی سرحدوں اور معاہدوں سے تو ناواقف ہے مگر لفظ 'عیوضہ' سمجھتی ہیں۔ وہ بار بار کہتی ہیں کہ ہماری سرکار احمد اور دیگر ماہی گیروں کو انڈیا کے ماہی گیروں کے 'عیوضے' میں رہا کروائے۔