چترال میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ آل پارٹیز کے کال پر اتالیق چوک میں ایک احتجاجی جلسہ بھی منعقد ہوا جس کی صدارت امیر جماعت اسلامی مولوی جمشیدنے کی۔اس موقع پر مظاہرین نے اتالیق بازار میں واک کرکے مظاہرہ کیا بعد میں اس نے ایک بہت بڑے جلسے کی شکل اختیار کی۔ جلسہ میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندگان،تاجر یونین، ڈرائیور یونین، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور کثیر تعداد میں لوگو ں نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر چترال بازار میں مکمِل شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی رہی جبکہ میں پشاور چترا ل شاہراہ کو بھی بلاک کیا گیا۔
احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ چترال کے لوگ بھی پاکستانی ہیں اور پر امن شہری ہیں مگر حکومت ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفیکشن جاری کرتے ہوئے ضلع بھر میں تمام پن چکیوں کو بند کرکے غیر مقامی لوگوں کو فلور مِل کھولنے کی اجازت دی۔ انہوں نے کہا کہ ان مِلوں میں تیار کردہ نہایت ناقص آٹا عوام کو فراہم کیا جاتا ہے جو انسانوں کے کھانے کی قابل نہیں ہوتا جبکہ لوگوں کو رعایتی نرخ پر گندم کی فراہمی بھی بند کرائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے یہ بھی برداشت کیا مگر ابھی حال ہی میں عبوری حکومت کے دور میں گندم کی قیمت اچانک سو فی صد بڑھا دی گئی اور سو کلوگرام گندم کی بوری 6 ہزار کی بجائے اب 12ہزار روپے میں مِلتی ہے جبکہ یہی گندم گلگت بلتستان میں صرف 4 ہزار روپے میں مِلتی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر 'فلور مِلز مافیا مردہ باد' وغیرہ کے بینرز بھی لگائے تھے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ چترال میں تمام فلور مِلوں کو بند کرکے پرانے نظام کے تحت لوگوں کو گندم سیل پوائنٹ سے فراہم کی جائے تاکہ یہ لوگ اپنے مرضی سے اسے پن چکیوں میں پیس کر استعمال کرسکیں کیونکہ مِل میں جو گندم پیسی جاتی ہے اس میں سے خالص میدہ الگ، سفید آٹا الگ، چوکر الگ اور نہایت ناقص معیار کا آغا الگ کیا جاتا ہے جسے عوام کو فروخت کیا جاتاہے۔ حکومتی پالیسی کے مطابق چترال میں چلنے والی مِل ستر فی صد آٹا سستے نرخ پر عوام کو فروخت کرے گی جبکہ تیس فی صد آٹا وہ اپنے مرضی سے فروخت کرنے کی پابند ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو رعایتی آٹا عوام کو فروخت کیا جاتا ہے وہ کھانے کی قابل بھی نہیں ہے اور اکثر مِل مالکان یہاں سے آٹا دوسرے اضلاع کو بھی سمگل کرتے ہیں۔
جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہوئی۔ قرار داد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ گندم کی نرخ میں فی بوری اچانک 6 ہزار روپے اضافہ کرنا ایک ظالمانہ فیصلہ ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ لوگ دو وقت کی سوکھی روٹی کیلئے بھی ترس رہے ہیں۔ آل پارٹیز اور سول سوسائٹی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت اس فیصلے کو فوراً واپس لے۔
قرارداد کے ذریعے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ چترال کے عوام کو بھی گلگت بلتستان کے نرخ پر گندم فراہم کی جائے کیونکہ چترال اور گلگت کے عوام کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ چترال میں لوگ آٹا مِلز کے مالکان کی من مانیوں سے تنگ آچکے ہیں جو چترال کے کوٹے کی گندم خرید کر اس سے بننے والا آٹا دگنے نرخ پر عوام کو فروخت کررہے ہیں جو معیاری بھی نہیں ہوتا۔ مِل مالکان چترال سے آٹا ضلع سے باہر بھی بھیج رہے ہیں۔ قرارداد کے ذریعے محکمہ خوراک سے مطالبہ کیاگیا کہ چترال میں آٹا مِلوں پرپابندی لگا کر عوام کو گودام سے گندم فراہم کی جائے نیز گوداموں میں لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور عوام کی ضرورت کے مطابق گندم کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے تو عوام شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کرنے پر مجبور ہوں گے اور حالات کی کشیدگی کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوں گی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ جس دن غلہ گوداموں میں گندم کی فراہمی بند کرتے ہوئے مِل مالکان کو آٹا دینے کا نوٹیفیکیشن آیا اس وقت ان گوداموں میں ایک مہینے کا سٹاک موجود تھا مگر وہ اچانک غائب ہوگیا۔ اس سلسلے میں بھی تحقیقات ہونا چاہیے۔
ہمارے نمائندے نے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر رحمت ولی خان کے دفتر جاکر ان سے بھی موقف لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ گندم کی نرخ بڑھانے میں ان کا کوئی عمِل دخل نہیں ہے وہ حکومت کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے مطالبے پر نو دن آٹا مِلوں کو گندم کی فراہمی بند ہوئی تھی بعد میں صوبائی حکومت کی مداخلت پر یہ سلسلہ دوبارہ جاری ہوا۔ تاہم چترال کے سرکاری گودام سے روزانہ دو سو من گندم عوام کو دی جاتی ہے اسی طرح دروش کے گودام سے 180 من گندم روزانہ عوام کو فراہم کی جاتی ہے یہ گندم آٹامِلوں کو فراہم کرنے کے علاوہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آٹا مِلوں کیلئے کوٹے کا سرکاری نرخ مقرر ہے اور اسی نرخ پر عوام کو آٹا فراہم کیا جاتا ہے۔
ہمارے نمائندے نے مِل مالکان سے بھی رابطہ کرکے ان کی موقف لینے کی کوشش کی مگر رابطہ نہیں ہو سکا۔ جلسہ میں چترال سے منتحب صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر بھی کڑی تنقید کی گئی جو ووٹ کے وقت عوام کا ہاتھ چومنے سے دریغ نہیں کرتے مگر مصیبت کے اس گھڑی میں اب وہ غائب ہیں۔
اس احتجاجی جلسہ میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں، تاجر یونین، ڈرائیور یونین، سول سوسائٹی کے نمائندگان نے بھی اظہار خیال کیا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ بعد میں مولوی جمشید کی دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔