نور قمر الزماں ایک بیوٹی انٹرپرینیور ہیں، ان کی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فالوونگ ہے۔ ملائیشیا کے حکام نے اسلام کی توہین کے الزام میں اس کی فوری حوالگی کا مطالبہ کیا اور جنوری میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا، جس میں تین سال تک قید کی سزا ہے۔
2018ء میں نور نے مذہبی تقریب میں ایک روایتی لمبی بازو کا لباس پہننا تھا جسے مالائی خواتین پہنتی تھیں۔ اس ٹرانس جینڈر کو ملائیشیا کے حکام مرد تصور کرتے ہیں اور اس کے مطابق مرد خواتین کی نقل نہیں کر سکتے اور ان کے کپڑے نہیں پہن سکتے۔
انہیں آسٹریلیا میں سیاسی پناہ دی گئی اور تھائی لینڈ نے انہیں جانے کی اجازت دی۔ آسٹریلیا کے دارالحکومت سڈنی سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملائیشیا کی ریاست سیلنگور میں محکمہ مذہبی امور کے افسران کی جانب سے ان پر حملہ کرنے کے بعد فرار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جس کے بعد ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے بھاگنا پڑا۔ میرے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا گیا، مارا پیٹا گیا، لاتیں ماری گئیں اور ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ یہ سب میرے والدین اور میرے دو بچوں کے سامنے ہوا، میں شرمندہ اور دکھی ہوئی، میں نے ان کے ساتھ تعاون کیا، لیکن اس کے باوجود، انہوں نے مجھے نقصان پہنچانا بند نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ شاید انھوں نے یہ سب اس لیے کیا کیونکہ انھوں نے مجھے ایک ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر دیکھا، اس لیے انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ہم ٹرانس خواتین کے بھی جذبات ہوتے ہیں اور وہ سب کی طرح اپنی زندگی گزارنے کی مستحق ہیں۔
نور قمر الزماں کے کیرئیر پر بات کی جائے تو وہ بہت مشہور سوشل میڈیا پرسنیلیٹی ہیں۔ خوبصورتی، شائستہ برتاؤ اور مزاحیہ پوسٹس کی وجہ سے ان کے لاکھوں فالوورز ہیں۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہوا جب لوگ ان کی جنس کے بارے میں سوالات کرنا شروع ہوئے۔
تاہم یہ واقعی کوئی راز نہیں تھا، نور قمر الزمان نے 2013 میں تھائی لینڈ میں ہونے والے مشہور مس ٹرانس جینڈر مقابلے میں حصہ لیا، اور ایوارڈ جیتا تھا۔
نور نے اپنی جنس کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ نر اور مادہ دونوں کے جنسی اعضاء کے ساتھ پیدا ہوئی تھیں۔ 2017 میں، انہوں نے اعلان کیا کہ اس کا جسم مکمل طور پر ایک عورت کی طرح ہو چکا ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے ڈاکٹر کی رپورٹ شائع کی۔
لیکن ملائیشین حکام نے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ڈویلپمنٹ نے کہا کہ اسے اس بات کے ثبوت کی ضرورت ہے کہ وہ ٹرانس جینڈر پیدا ہوئی تھی۔ پچھلے سال اس وقت تنازعہ بڑھ گیا جب نور قمر الزمان کی حج کے دوران اپنے اہلخانہ کے ساتھ خواتین کے لباس پہنے ہوئے تصاویر شائع ہوئیں، جس پر قدامت پسند مسلمانوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔
نور قمر الزمان نے کہا کہ جب میں پاک سرزمین پر تھی تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید میری پیدائش کی کوئی وجہ ہے اور ایک خواجہ سرا اور مسلم خاتون ہونے کے ناطے مجھے یقین ہے کہ مجھے اپنے مذہب کا اپنے طریقے سے اظہار کرنے کا حق ہے۔ ان کے پاس مجھے سزا دینے اور خدا کا کام کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
ادھر بی بی سی نے ملائیشیا کے محکمہ مذہبی امور سے نور قمر الزمان کیس پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ستمبر میں مذہبی امور کے وزیر ادریس احمد نے کہا تھا کہ اگر نور ہمارے پاس آکر اپنی غلطی تسلیم کرنا چاہتی ہے، اور اپنی اصل فطرت پر واپس آنے پر آمادگی ظاہر کرنا چاہتی ہے، تو کوئی حرج نہیں، ہم اسے سزا نہیں دیں گے۔