نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ملک کی سیاسی صورتحال پر بھی بات کی اور اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سکرپٹ یہی ہے کہ ٹی ایل پی اور تحریک انصاف مل کر الیکشن لڑیں کیونکہ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ دونوں جماعتیں مل جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے آج ٹی ایل پی مرکز کا دورہ کرکے وہاں شوریٰ کے ارکان سے ملاقات کی۔ میں نے عرس کی تقریبات بارے میں سوال کیا تو مجھے بتایا گیا کہ جیسے حضرت داتا صاحبؒ اور بابا فرید ؒ کے عرس کی تقریبات چلتی ہیں، بالکل اسی طرح خادم حسین رضوی کا عرس بھی ہر سال منعقد کیا جائے گا۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ ریاست نے جو آپ کے ساتھ وعدے کئے تھے وہ پورے کئے جا چکے ہیں، آپ نے بھی کیا ریاست کیساتھ کوئی وعدہ کیا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ میں نے پوچھا کہ سنا ہے کہ آپ دوبارہ دھرنا دیں گے اور نہ ہی مارچ کریں گے تو اس کا جواب دیتے ہوئے مجھے کہا گیا کہ عمران خان کو ان سب چیزوں کی اجازت ہے تو ہمیں کیوں نہیں؟ ہم نے ریاست سے کہہ دیا ہے کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1462045831893291017
لاہور میں منعقدہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علی احمد کرد کی تقریر سے ہی عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی ساکھ بچ گئی۔ مرحومہ کی روح کو بہت تسکین ہوئی ہوگی۔ ورنہ وہاں کچھ ایسے ایونٹس بھی تھے اگر عاصمہ اگر آج زندہ ہوتیں تو کبھی نہ ہونے دیتیں۔ مثلا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی اس تقریب میں موجودگی اور موجودہ عدلیہ کے بارے میں جو ان کی رائے ہوتی تو کیا وہ چیف جسٹس گلزار احمد کو بلا کر سٹیج پر بٹھاتیں؟
ان کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ آج عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تقریب میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو مدعو کیسے کر لیا گیا؟ عاصمہ جہانگیر کی آئیڈیالوجی، ان کی فلاسفی اور عدلیہ میں ان کا کردار اور ثاقب نثار کو دیکھیں۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ عدلیہ عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہوئی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے اس بات کا احساس بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ مجھ پر کسی کا دبائو نہیں تو کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان پر 22 کروڑ عوام کا دبائو بھی نہیں ہے۔ میں چیف جسٹس گلزار احمد کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ سادہ کپڑوں میں تھوڑا سا حلیہ بدل کر میرے ساتھ ماتحت عدالتوں کا چکر لگائیں۔
پروگرام میں شریک گفتگو فوزیہ یزدانی کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک میں انصاف کی فراہمی کی بات کرتے ہیں لیکن پاکستان کا عام شہری تو انصاف کے حصول کیلئے تھانے جانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں واقعی سب کا محاسبہ ہو رہا ہوتا تو اور عدالتیں اتنی ہی کھلی ہوتیں تو انھیں عتیقہ اوڈھو کی چار بوتلیں شراب نظر نہ آتیں۔ انھیں نظر آتا کہ اس ملک سے احسان اللہ احسان کیسے بھاگ گیا، انھیں نظر آتا کہ اس ملک میں لاپتا افراد کی تعداد کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ سعد رضوی راتوں رات کالعدم جماعت سے کیسے بدل گیا۔ ریاست نے ایسے بندے کو چھوڑ دیا جس کے کارکنوں نے پولیس اہلکاروں کو مارا۔