اسلام آباد کی خاموش مگر سرد فضائیں اس مرتبہ کسی سیاسی طوفان کا پتہ دے رہی ہیں۔ 24 نومبر کی ' فائنل کال' کو لے کر تحریک انصاف متحرک ہو چکی ہے اور آثار یہی بتا رہے ہیں کہ صوابی انٹرچینج سے نکلنے والے قافلے اسلام آباد پر یلغار کرنے کیلئے کمر بستہ ہیں، بلکہ تحریک انصاف کے دعویداروں کے مطابق تو تقریباً 10 ہزار کے لگ بھگ کارکن اسلام آباد اور راولپنڈی کے اطراف کے علاقوں میں خفیہ مقامات پر پہنچا بھی دیے گئے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت میڈیا کو ذرائع سے مذاکرات کے حوالے سے خبریں دے رہی ہے جس سے عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کیلئے بے چین ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تاہم توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان کی ضمانت منظوری یقیناً تحریک انصاف کے کارکنوں کو نیا جذبہ دے گی۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان جو پنجاب میں تحریک انصاف کو منظم کرنے میں کافی سرگرم ہوچکی ہیں (سیاسی پنڈت تو انہیں عمران خان کی زنانہ کاپی قرار دیتے ہیں)، وہ کہہ چکی ہیں کہ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہوں گے۔ جبکہ پشاور میں بشرٰی بی بی بھی کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے میدان میں آ چکی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی تاریخ میں روایتی 'اسلام آباد لانگ مارچ' کی قیادت اس مرتبہ عمران خان کے خاندان کی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک اشارہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر ایک مرتبہ پھر خواتین کی قیادت سامنے آ رہی ہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کیلئے بیگم نصرت بھٹو نے تحریک چلائی، نواز شریف جب اٹک جیل میں طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے اس وقت محترمہ کلثوم نواز نے بھی تحریک چلائی، اس وقت بھی ریاست نے اس تحریک کو روکنے کی کوشش کی، یہ الگ بات ہے کہ نتائج اس کے برعکس نکلے۔
2024 کے پاکستان میں اس مرتبہ نیا کیا ہے کہ تحریک انصاف اپنے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کو یقینی بنا پائے گی، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پختونخوا سے کتنی بڑی تعداد میں عوام نکلتے ہیں، کیونکہ پنجاب میں گذشتہ دو سالوں کے دوران ریاستی جبر کے بعد اب تحریک انصاف پنجاب میں وہ دم خم نہیں رہا جو کبھی اس کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ تحریک انصاف پر ایک مخصوص علاقائی جماعت ہونے کا تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں قصور تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا کم اور حالات کی ستم گری کا زیادہ ہے۔
10 اپریل کی رات سے ' حقیقی آزادی' کا شروع ہونے والا سفر ابھی تک جاری ہے۔ کئی اتار چڑھاؤ آئے، پہلے 25 مئی 2022 کو ڈی چوک پہنچنے کی کوشش ناکام رہی جب عمران خان نے صبح صبح کشمیر ہائی وے پر اپنے کنٹینر سے لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا، پھر کچھ وقفے کے بعد عمران خان نے 28 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا، اس بار اگرچہ کارکن زیادہ منظم، متحرک اور ' حقیقی آزادی' کے جذبے سے سرشار تھے، عمران خان وزیر آباد پہنچنے تک کنٹینرپر لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے بعد روزانہ رات کو جی ٹی روڈ سے واپس زمان پارک آ جاتے تھے، پھر اگلی صبح جی ٹی روڈ سے روانہ ہو جاتے تھے۔ وزیر آباد وہ مقام تھا جہاں عمران خان پر گولیاں چلیں، میڈیا کے کیمروں نے وہ منظر بھی دیکھا جب عمران خان ٹانگ پر پٹی باندھے کنٹینر سے ہاتھ لہراتے ہوئے باہر نکلے (یہ بھی حقیقت ہے کہ جب عمران خان کی گاڑی شوکت خانم ہسپتال کیلئے روانہ ہوئی تو اس وقت جی ٹی روڈ پر عمران خان کی گاڑی کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کی گئی)۔ لیکن عمران خان نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور خود 26 نومبر 2022 کو راولپنڈی میں سٹیج پر نمودار ہوئے، تقریر کی اور پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کو مؤخر کر دیا (حالانکہ راولپنڈی میں اس وقت احتجاج کا مقصد صرف آرمی چیف کی تقرری کو روکنا تھا، جس میں ناکامی ہوئی)۔
پھر پاکستانی قوم نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے رینجرز اہلکاروں کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری ہوتے ہوئے بھی دیکھی، جس کے ردعمل میں پنجاب اور پختونخوا کے بڑے شہروں میں 9 مئی کا واقعہ بھی ہوا، جس کے بعد ریاست نے 'پروجیکٹ عمران' کا اختتام کر دیا (مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پھر اس 'پروجیکٹ' کی ملکیت عوام نے اپنے ہاتھ میں لے لی) اور تحریک انصاف کا حقیقی امتحان شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔
اب کی بار ' فائنل کال' کے نام سے اسلام آباد کی طرف احتجاج کیلئے تحریک انصاف پھر پختونخوا کو مرکز بنائے ہوئے ہے۔ 24 نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی سے پہلے تحریک انصاف کو کئی امتحانوں کا سامنا کرنا ہے، ریاست اس مرتبہ پہلے سے زیادہ سختی سے جواب دینے کی تیاری کر چکی ہے۔ گذشتہ 15 ماہ کی قید نے عمران خان کو مذاکرات اور احتجاج ایک ساتھ جاری رکھنے کی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کر دیا ہے، (گارڈین کو دیا گیا انٹرویو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں عمران خان نے ڈیل کے امکان کو رد نہیں کیا بلکہ کچھ شرائط رکھی ہیں)۔
مذاکرات کے فیصلہ کن ہونے کا امکان ان قوتوں پر ہے جن کے ہاتھ میں موجودہ حکومت کی لگام ہے، کیونکہ اس نظام کے تسلسل کی گارنٹی بھی انہی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ فی الحال اسٹیبلشمنٹ کو اس نظام کیلئے کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان کے تین بڑے مطالبات ہیں جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کی واپسی، چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی اس حکومت کے بس کی بات نہیں۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مرتبہ عمران خان کے پاس آپشن ماضی کے مقابلے میں نہایت کم ہیں۔ سیاسی قید جیل کے پہلے سال تنگ نہیں کرتی بلکہ اصل امتحان ہی جیل کے دوسرے سال شروع ہوتا ہے، جیل کاٹنا مشکل ہو جاتی ہے، زمینی حقائق بھی کچھ یہی بتاتے ہیں کہ عمران خان قید سے نکلنا چاہتے ہیں، لیکن وہ فی الحال احتجاج کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کا شمال کی طرف گذشتہ دو سالوں سے انحصار زیادہ رہا ہے، جی ٹی روڈ کے متبادل کے طور پر پشاور کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیلئے دو متبادل راستے آپشن کے طور پر موجود ہوں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف پشتون عوام کو ' حقیقی آزادی' کے بیانیے کے رنگ میں ڈھالنے کے باوجود کوئی نتیجہ خیز احتجاج کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سوال کا جواب تحریک انصاف کی قیادت کے وہ رہنما ہیں جو شروع دن سے وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن اب کی بار ' فائنل کال' تحریک انصاف کی قیادت کیلئے ایک امتحان بن چکی ہے، اگر اس مرتبہ بھی یہ 'مسڈ کال' ثابت ہوئی اور اسلام آباد میں کوئی بڑا پاور شو کرنے میں ناکام رہی تو پھر کم از کم اگلے سال موسم بہار تک عمران خان کے جیل سے رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی رہیں گے۔