آج کی صبح سوشل میڈیا پر کانفرنس سے خطاب کرنے والوں کے عاصمہ جہانگیر کی کامیابیوں سے متعلق لاتعداد پیغامات موجود تھے۔ کچھ پیغامات پرانے شاگردوں کے بھی تھے کہ انہوں نے کس طرح عاصمہ جہانگیر سے بہت کچھ سیکھا۔ گذشتہ روز کے اخبارات میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی کانفرنس میں جہاں شرکت اور ان کے خطاب سے متعلق شہ سرخیاں لگائی گئیں وہیں لاہور پریس کلب میں ویمن ایکشن فارم نے ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے چیف جسٹس کے خلاف اپنے اختیارات اور آئینی حدود سے تجاوز کرنے پر ایک ریفرنس بھی سپریم جوڈیشیل کانفرنس میں بھیجنے کا اعلان کیا۔ ہفتے کو ملک میں نئے ابھر کر سامنے آنے والے مذہبی شدت پسند گروہ تحریک لبیک یا رسول اللہ نے ریاست کو دھمکی دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ توہین رسالت کے جرم میں قید مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو اگر رہائی دی گئی تو وہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے سر قلم کر دیں گے۔ آسیہ بی بی ایک غریب مسیحی خاتون ہے جو توہین مذہب کے نام پر گذشتہ آٹھ سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنے مقدمے کی قانونی کارروائی کا انتظار کر رہی ہے۔
کانفرنس کے شیڈول کے مطابق پہلی صبح عاصمہ جہانگیر کی یاد میں وقت دیا گیا۔ جبکہ دو دنوں پر محیط اس کانفرنس کا بقیہ وقت جمہوریت، عدلیہ کی آزادی، صنفی برابری، مذہبی شدت پسندی کا فروغ، سول سوسائٹی کا کردار، اقوام متحدہ کا سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کا پروگرام جیسے موضوعات پر سیشن مخصوص کر کے عاصمہ جہانگیر کا ذکر کسی نہ کسی حوالے سے کیا گیا۔
یوں تو اس کانفرنس کے ایجنڈے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا کیونکہ تمام روایتی کانفرنسوں کی طرح اس کو منعقد کیا گیا اور یہ شرکا کی توقعات کے عین مطابق تھی جس میں ان تمام موضوعات کا اعادہ کیا گیا جو کہ ایک لبرل پلیٹ فارم سے متوقع ہوتے ہیں۔ لیکن بہر حال ہمیں انسانی حقوق کی دنیا کے بڑے بڑے نام، این جی اوز اور ایسے انسانی حقوق کے کارکن اس کانفرنس میں درکار نہیں تھے جنہوں نے اسی کی دہائی میں انسانی حقوق کی جدوجہد کی۔ ان این جی اوز، بین الاقوامی ڈونرز اور باقی مقررین کو عصر حاضر میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا استعارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی اشرافیہ، سابقہ اور مستقبل کے وزرائے اعظم، وزرا، وکیل اور جج حضرات کو اس کانفرنس میں شرکت کر کے انسانی حقوق اور دیگر موضوعات پر تقاریر کرتے وقت یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جن مسائل پر اس کانفرنس میں بات کی جا رہی ہے وہ مسائل بہت حد تک خود انہی کے اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
شاید مارکیٹ ڈیمانڈ اور عالمی حالات کے تناظر میں اب انسانی حقوق بھی ایک پراڈکٹ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو مارکیٹ میں قوت خرید رکھنے والے گاہکوں کیلئے دستیاب ہیں۔ اس مارکیٹ میں سٹیک بلند ہیں اور اس مارکیٹ کی اپنی ڈیمانڈ اور طور طریقے ہیں۔ ایک جانے پہچانے گاہک کیلئے اس کے ذوق کی تسکین اور اس کے نظریاتی، سماجی اور نفسیاتی آسائشات کو محفوظ بناتے ہوئے اس کو بتدیج سپورٹ کرنا بھی اس مارکیٹ یا صنعت کے بنیادی لوازمات ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی صنعت کے گاہک پاکستانی لبرل اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے پرانے خیالات کے ساتھ ساتھ یہ خود ان حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہیں جن کیلئے یہ آواز بلند کرتےہیں۔ اشرافیہ کی انسانی حقوق کی عملبرداری پر اجارہ داری کی وجہ سے اس ملک میں لبرل آوازیں اور خیالات آج تک عوام میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرنے پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اکثریت لبرلز کے مساوی حقوق اورسماج میں بسنے والے تمام انسانوں کے برابر ہونے کے دعؤوں کو کھوکھلا سمجھتے ہوئے تنگ نظری اور بنیاد پرستی کی جانب مائل ہو جاتی ہے۔ حالانکہ فوجی اور آمرانہ طرز حکمرانی بھی برابری کے مواقع فراہم کرتے نظر آتے ہیں جبکہ لبرل اشرافیہ یہ مواقع فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام لیتی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس شاید اس امر کی نشاندہی تھی کہ وہ بنیادی حقوق جن کے تصورات لبرل اشرافیہ کی جانب سے تشکیل پاتے ہیں ہمارے ملک میں عوام میں قبولیت کی سند اور جڑیں بنانے میں کیوں ناکام رہتے ہیں۔ کانفرنس کی اشتہاری مہم کا آغاز وقت سے پہلے ہی کیا گیا اور اس کام کیلئے سرفہرست انگریزی روزناموں میں اشتہارات دیے گئے اور کانفرنس پچھلے ہفتے کے اختتام پر آواری، لاہور میں منعقد کی گئی۔ کانفرنس منعقد کرنے کیلئے ایک فائیو سٹار ہوٹل کا انتخاب اس طبقاتی فرق کو اجاگر کرتا ہے جو انسانی حقوق کی علمبردار اشرافیہ اور انسانی حقوق کیلئے مارے مارے پھرنے والوں میں موجود ہیں۔ آواری ہوٹل کا داخلی راستہ انتہائی خوبصورت اور پرتعیش شیشوں کی سیڑھیوں سے مزین ہے۔ کشادہ لاؤنج اور اونچی اونچی دیواریں جو آرٹ کے مختلف نایاب نمونونوں سے مزین ہیں۔ اس پرآسائش جگہ پر جو غریب یا لوئر مڈل کلاس افراد عام دنوں میں جا سکتے ہیں وہ صرف اس ہوٹل کی صفائی کرنے والا عملہ، قیمتی گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈز ہی ہو سکتے ہیں جو اپنا مخصوص یونیفارم زیب تن کیے لبوں پر ایک مسکراہٹ سجائے شاید کسی کو دکھائی تک نہیں دیتے۔ کوئی بھی یہ راستہ استعمال نہیں کر سکتا سوائے ان کے جو کسی فنکشن پر مدعو ہوں یا ہوٹل کے گاہک ہوں۔
یہ تفریق کانفرنس کے مقام اور ہال کی رہنمائی کیلئے انگریزی زبان کے سائن بورڈز سے اور زیادہ نمایاں ہو رہی تھی۔ مقررین کی اور سامعین کی زیادہ تر تعداد اپر کلاس اور اپر مڈل کلاس سے تھی۔ بین الاقوامی ایجنسیوں کے نمائندے اور سفارتکار بھی شرکا میں شامل تھے۔ کچھ یونیورسٹی کے طلبہ بھی سامعین میں شامل تھے جو شاید تاریخ میں ایک مقام حاصل کرنا چاہتے تھے اور علم و آگہی کی تمنا لیے بڑے لوگوں کے قرب کے خواہشمند تھے۔ آئی اے رحمان بھی کانفرنس میں موجود تھے جو انسانی حقوق کی اشرافیہ سے الگ تھلگ کسی اور مٹی سے بنے ہوئے ایک قد آور شخصیت ہیں لیکن ان کو بھی اس انسانی حقوق کی اشرافیہ نے اس دائرے میں مقید کر رکھا ہے جس دائرے تک رسائی کیلئے تعلقات اور طاقت کا ہونا بیحد ضروری ہے۔
میرا خیال ہے کہ مزدور یونین اور ٹریڈ یونین سے وابستہ افراد بھی کانفرنس میں موجود تھے جن کے ساتھ عاصمہ جہانگیر اور این جی اوز نے سالہا سال مل کر کام کیا تھا یا جن کو امداد دی جاتی رہی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی لڑائی کے اصل سٹیک ہولڈرز جن کی زندگیاں گورننس کے اس نظام اور سماجی تقسیم کے باعث اجیرن ہو چکی ہیں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہ ہی ان کو کسی نے بھی نمائندگی دینے کا سوچا اور انگریزی کو کانفرنس کی زبان اور اظہار کا ذریعہ بنا کر اس کانفرنس کو بالکل ہی ایسے افراد کیلئے بے معنی بنا دیا گیا۔
میرا خیال ہے کہ کانفرنس میں غریب اور پسے ہوئے طبقات کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا حالانکہ نمائشی طور پر بھی چند پسے ہوئے غربا، ظلم و ستم کا شکار اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس طرح کے فنکشنوں میں شرکت ضروری ہوتی ہے تاکہ ایسے فنکشن کیلئے انسان دوست اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا صیح ترجمان ہونے کی سند بھی حاصل کی جا سکے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس سند کی بہت حیثیت اور قیمت ہوا کرتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کی ’گلوبلائزڈ‘ اشرافیہ کے ہاتھوں استحصال کا شکار کتنے افراد کو سٹیج پر آ کر اس سیاسی اور معیشت چلانے والی اشرافیہ سے بات کرنے کا موقع دیا گیا جس نے ان کی زندگیوں میں اپنی فیصلہ سازیوں سے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ طاقت یا طاقتور کے سامنے سچ بولا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یا پھر صرف طاقت ہی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ آیا اس کانفرنس کا انعقاد محض اپنی اور اپنے نیٹ ورک کی تشہیر کرنا تھا یا پھر واقعی میں اس کے انعقاد کا مقصد اس معاشرے میں بسنے والے بنیادی حقوق سے محروم پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انسانی حقوق کی دنیا کے سرگرم اور بڑے بڑے نام یہاں موجود تھے لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ جب مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی تنظیم اے جی ایچ ایس (جس کو اب ان کی بیٹی سلیمہ چلاتی ہیں) نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو سٹیج پر شرکا سے خطاب کیلئے مدعو کیا تو کسی نے احتجاجاً سٹیج نہیں چھوڑا اور نہ ہی کسی نے تقریب کا بائیکاٹ کیا، حالانکہ ثاقب نثار اس وقت ملک میں آمرانہ طرز نظام کو رائج کرنے والوں میں سے ایک ہیں، ایک ایسے منصف جو خود آئین شکنی کے مرتکب ہیں اور جن کے اقدامات کے باعث مضبوط جمہوریت، بنبیادی حقوق اور عوام تک اقتدار کی بنیادی منتقلی کے مستقبل کا خواب دم توڑ چکا ہے۔
ویمن ایکشن فورم سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین نے البتہ چیف جسٹس کے خطاب والے سیشن میں شرکت نہیں کی لیکن باقی تمام سیشنز میں بھرپور طریقے سے شریک نظر آئیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ویمن ایکشن کمیٹی کی یہ خواتین اپنی جوانی میں اپنے بچوں کے ساتھ اسی کی دہائی میں وطن عزیز کی بدترین ڈکٹیٹر شپ کے خلاف لاہور کی سڑکوں پر نبرد آزما رہی تھیں۔ مجھے ان کی اس بدترین دور میں نہ جھکنے والی اور ایک واضح نظریاتی لڑائی آج بھی یاد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ خواتین بھی اندر ہی اندر یہ بات جانتی ہیں کہ محض چیف جسٹس کے سیشن کا بائیکاٹ کرنا کوئی بامعنی یا قابل ذکر احتجاج نہیں تھا۔ نجانے انہیں کیا ہوا ہے۔ وہ سب جو زیادہ بہتر جانتے ہیں، میرا ان سے سوال ہے کہ چیف جسٹس کو اس تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا تھا اور کانفرنس میں موجود شرکا نے اس بات پر تحفظات کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ خاص طور پر وہ افراد جو آمرانہ نظام کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔
الفاظ میں بہت قوت ہوتی ہے لیکن جب یہ واضح تضادات اور منافقت کا شکار ہو جائیں تو اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مجھے اس کانفرنس سے جو مانوس چہروں کے باوجود کسی اور دنیا کی دکھائی دے رہی تھی، یہ امید تھی کہ اس میں اس بات پر بحث کی جائے گی کہ سماج میں کیا غلط ہوا کہ آج یہاں کے بسنے والوں کے مزاج میں آمریت بس چکی ہے یا آمریت کو قبول کرنے کی عادت پڑ چکی ہے اور شدت پسندی کیونکر سرایت کرتی جا رہی ہے۔ مجھے توقع تھی کہ کانفرنس میں ایماندارانہ طریقے سے اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ ترقی پسندوں کے بیانئے عوام کو متاثر کرنے میں ناکام کیوں ہوئے؟ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں اور انسانی حقوق سے محروم افراد کے درمیان آخر بداعتمادی کی فضا کیوں موجود ہے؟ مجھے اچھا لگتا اگر این جی اوز کے کردار پر روشنی ڈالی جاتی، ان کی سٹرکچرل ناکامیوں اور ان کے ایکٹوزم کے کارپوریٹ کلچر میں تبدیل ہونے کے مضمرات پر اگر سیر حاصل بحث کی جاتی۔ شاید میں کم جشن کی توقع کر رہی تھی کیونکہ جب غریبوں کے نام پر ایسے فنکشنز منعقد کیے جاتے ہیں، ان کے پاس خوشیاں منانے کو کچھ خاص نہیں ہوتا۔
میری توقع تھی کہ عاصمہ جہانگیر کی قد آور شخصیت کا اعادہ کیا جائے گا اور ساتھ ہی ان کی ناکامیوں پر بھی ایک نگاہ ڈالی جائے گی تاکہ مستقبل میں ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جا سکیں۔ میری توقع تھی کہ یہ ایک اوپن فورم ہوگا جس میں حقیقی معنوں میں ان افراد کو مدعو کیا جائے گا جو پاکستان میں بنیادی حقوق سے محروم ہیں، ایک مکالمے کا بندوبست ہوگا جہاں ان سب کو سنا اور سمجھا جائے گا۔ نظریاتی، تنقیدی مباحث کا مطلب ہے کہ ہم اعلیٰ اخلاقی اقدار کا استعارہ بن سکتے ہیں۔ یہ ایک افسانے کی مانند ہے، ایک عمل ہے جسے اس کی تاریخ جاننے کی ضرورت درکار ہوتی ہے، اس کی سماجی بنیادوں، بیانئے، اس کے ہیرو اور بڑی شخصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔
ترقی پسندوں کیلئے عاصمہ جہانگیر اور قدامت پسندوں کیلئے ممتاز قادری اپنے اپنے نطریاتی مقاصد کے حصول کیلئے دو مختلف استعارے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ شریعت کو ملک میں نافذ کرنے والے گروہوں کو نئے استعارے ملنے یا نہ ملنے سے خاص فرق نہیں پڑتا ہے لیکن ترقی پسندوں کیلئے تعمیری و تنقیدی مباحث اور سوچ سے انحراف ان کی نظریاتی پوزیشن کو کمزور بنا دیتا ہے۔ اس کانفرنس سے یہ پیغام ملا ہے کہ جو لوگ یہاں موجود تھے وہ ایک دوسرے سے طاقت اور آسائشات کے تعلق کی بنا پر یہاں موجود تھے نہ کہ نظریاتی وابستگی کی وجہ سے اور انہیں مغرب کی جانب سے تعاون حاصل رہتا ہے جو ایک ہاتھ سے کچھ دے کر دوسرے ہاتھ سے بہت کچھ وصول بھی کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسی کانفرنس تھی جو اپنے انعقاد کے بنیادی مقصد کو فراموش کر بیٹھی جس کی بنیادی وجہ اس کے انعقاد کا مقام، اس کے بلائے گئے شرکا اور اس کے نظر انداز کیے گئے افراد تھے۔ مخلص یا نیک مقصد کے باوجود اس کانفرنس کے پسے ہوئے طبقات کے مسائل میں عدم دلچسپی نے اس کی افادیت کو بے معنی بنا دیا۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آسائشات اندھا بنا دیتی ہیں جبکہ آوازیں افادیت نہیں کھوتیں۔