اپوزیشن چاہتی کیا ہے؟: 'صرف مائنس عمران خان نہیں، نئے رولز آف گیم بھی'

02:19 PM, 20 Oct, 2020

رضا رومی

18 اکتوبر (اتوار) کو حزب اختلاف کے گیارہ جماعتی اتحاد نے کراچی میں ایک زبردست جلسہ منعقد کیا جس میں نہ صرف وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کا عزم ظاہر کیا گیا بلکہ مقتدرہ کے ان حصوں کے احتساب کا مطالبہ بھی کیا گیا جنہوں نے مبینہ طور پر عمران خان کو درپردہ سیاسی مدد فراہم کر کے اسلام آباد کا اقتدار بخشا ہے۔


حزب اختلاف کی جماعتوں نے گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے اتحاد تشکیل دیا تھا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کے نام سے اس سیاسی اتحاد نے بنیادی طور پر جمہوریت کے بحران، اختیارات کے عدم توازن اور انسانی حقوق کے تحفظ جیسے مطالبات کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے۔ حزب اختلاف کو شکایت ہے کہ وزیر اعظم کے ایما پر وفاقی ایجنسیوں کے ذریعے بدعنوانی کے مقدمات کی آڑ میں انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں میڈیا کی آزادی پر قدغنوں اور پارلیمنٹ کو بے وقعت کیے جانے کے بارے میں بھی تشویش ہے کیونکہ عمران حکومت زیادہ تر کاروبار مملکت آرڈیننس کے ذریعہ چلا رہی ہے اور اس نے عملی طور پر حزب اختلاف کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔


پی ڈی ایم کی قیادت ایک مذہبی سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مرکزی سیاسی دھارے میں شامل دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ ان جماعتوں کو ایک مشترکہ ایجنڈے پر اتفاق کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اس اتحاد کی تشکیل کو عمران خان حکومت کی ناکامیوں، بڑھتے ہوئے افراط زر اور بے روزگاری سے بھی مدد ملی ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت بری طرح مندی کا شکار ہے۔


 

مسلم لیگ (نواز) نے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف کو میدان میں اتارا ہے جو اپنی کرشماتی شخصیت نیز عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود ان کے حامیوں کے خلاف سخت موقف کی بنیاد پر اپنی پارٹی کا عوامی چہرہ بن چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اب باضابطہ طور پر بے نظیر بھٹو شہید کے بیٹے بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) دو بڑی موروثی جماعتوں میں قیادت کی تبدیلی کا اشارہ بھی بن رہی ہے۔


پی ڈی ایم نے 16 اکتوبر بروز جمعہ کو نواز شریف کے سیاسی گڑھ گوجرانوالہ میں ایک جلسے سے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے چالیس ہزار سے زائد افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف موجودہ حکومت پر سخت تنقید کی بلکہ آرمی چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کو ججوں اور میڈیا پر دباؤ کے ذریعے 2018 کے انتخابات سے من مانے نتائج نکال کر عمران خان کو اقتدار میں لانے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔


نواز شریف قبل ازیں بھی پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ تاہم جمعے کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عوام کو اپنے بے لاگ لہجے سے چونکا دیا بلکہ ان کی اپنی جماعت کے کچھ مرکزی رہنما بھی ان کے دو ٹوک موقف سے حیران رہ گئے۔ وہ دراصل پنجاب میں اپنے کٹر حامیوں سے مخاطب تھے جو 2016ء میں ان کی عدالتی معزولی کو مقتدرہ کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کی تقریر ٹی وی چینلز پر نہیں دکھائی گئی لیکن ڈیجیٹل دور میں یوٹیوب چینلز اور فیس بک کی بدولت بڑی تعداد میں لوگوں نے یہ تقریر سنی۔ پریس مین اس کی خبریں دھیمے انداز میں دی گئیں تاہم اپوزیشن لیڈر کی گولہ باری نے خاصا کام دکھایا۔


 

اگلے دن وزیر اعظم عمران خان نے ردعمل دیتے ہوئے نواز شریف کو ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے بوٹ چاٹنے والا قرار دیا۔ خان غلط نہیں تھا۔ نواز شریف سنہ 1980 کی دہائی میں فوج کے پروردہ تھے اور ان کی سیاسی کایا کلپ ہم عصر پاکستانی تاریخ کی ایک حیران کن کہانی ہے۔ چند ٹی وی اینکروں نے نواز شریف کو صاف صاف لفظوں میں ’انڈین ایجنٹ‘ کہا۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا نواز شریف کی تقریر لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے عہدیداروں نے لکھی ہے۔ نواز شریف اواخر 2019 سے علاج کی غرض سے لندن میں ہیں اور اس جلاوطنی سے انھیں اپنے دل کی بات کہنے کے لئے کچھ زیادہ آزادی ملی ہے۔


گوجرانوالہ کا جلسہ کامیاب رہا۔ اسلام آباد میں روزنامہ ڈان کے مدیر نے اسے ایک اٹھتے ہوئے طوفان سے تشبیہ دی ہے۔ مریم اور بلاول نے متاثر کن تقاریر کیں لیکن نواز شریف کے خطاب کی چندھیا دینے والی کیفیت نے جلسے کے باقی ماندہ پہلوؤں کو ماند کر دیا۔ سیاسی مبصرین ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ گئے کہ نواز شریف کو اس طرح کا جارحانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پاکستان میں بہادر ترین سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں نے بھی کبھی حاضر سروس فوجی قیادت پر نام لے کر تنقید نہیں کی۔ اسٹیبلشمنٹ نے تاحال کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا لیکن حکومتی وزراء اور ترجمان نواز شریف کی تقریر کو غداری اور پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔


اتوار کو کراچی کے جلسے سے نواز شریف نے خطاب نہیں کیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ شاید حزب اختلاف نے اس طرح کے تابڑ توڑ حملوں کے عواقب پر غور کیا ہو۔ تاہم کراچی جلسے کے مقررین نے بالواسطہ الفاظ میں اس پیغام کا اعادہ ضرور کیا جو نواز شریف نے اپنے حامیوں کو دیا ہے۔


 

مریم نواز نے واضح کیا کہ ان کے والد اور ان کی جماعت فوج مخالف نہیں ہیں اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے سپاہیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ لیکن مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کا اصل ہدف وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی عمل میں مداخلت کی۔


بلاول بھٹو نے حکومت پر معیشت برباد کر کے مہنگائی اور غربت پھیلانے کا الزام لگایا۔ دراصل وزیر اعظم عمران کے لئے منتخب (Elected) کی بجائے چنیدہ (Selected) کی اصطلاح بلاول بھٹو ہی نے پہلی مرتبہ استعمال کی تھی۔ جب وہ موجودہ اسمبلی میں عمران خان کے قائد ایوان چنے جانے کے بعد رسمی مبارک باد دینے اٹھے تو اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا تھا، آپ کو مبارک ہو وزیر اعظم کہ آپ اس عہدے کے لئے بھرتی کر لئے گئے۔ Prime Minister Select کے یہ اختتامی کلمات اس قدر بے ساختہ تھے کہ خود عمران خان بھی نادانستہ طور پر کچھ لمحے ڈیسک بجاتے رہے تاوقتیکہ انہیں ارکان اسمبلی کے قہقہوں سے اندازہ ہوا کہ حزب اختلاف کے نوجوان رہنما نے ان پر ایسی گہری چوٹ کی ہے جو قریب قریب چپک کر رہ گئی۔ کچھ عرصے بعد عمران خان اور موجودہ حکومتی بندوبست کے حامی سمجھے جانے والے صحافی کامران خان نے Hybrid Regime (مخلوط النسل حکومت) کی سیاسی طور پر اجنبی لیکن کسی حد تک معتبر محسوس ہونے والی اصطلاح سے وزیر اعظم کو سہارا دینے کی کوشش کی۔ یہ اصطلاح اب سوشل میڈیا پر عام استعمال ہو رہی ہے تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ Hybrid Regime کی انگریزی اصطلاح کا اردو ترجمہ دوغلی حکومت بنتا ہے جو کہ مقامی ثقافت میں اپنی جگہ کسی قدر تضحیک آمیز تاثر دیتا ہے۔


یکے بعد دیگرے دو کامیاب جلسوں کے بعد پیر کی صبح بہت متوقع ’رد عمل‘ کا آغاز دیکھنے میں آیا۔ نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کو علیٰ الصبح کراچی میں اپنے ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کر لیا گیا۔ سابق رکن پارلیمنٹ کیپٹن صفدر حالیہ ہفتوں میں سیاسی طور پر خاصے سرگرم رہے ہیں اور اپنی اہلیہ اور سسر کی طرح سخت گیر موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اتوار کے روز انہوں نے کراچی میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دیتے ہوئے اپنی جماعت کا مقبول نعرہ ”ووٹ کو عزت دو“ لگایا۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مس فاطمہ جناح کے حق میں نعرے بازی بھی کی جنہوں نے پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف جنوری 1965ء میں الیکشن لڑا تھا۔ بابائے قوم کے مزار سیاسی نعرے بازی قانون کے تحت جرم ہے۔ معروف صحافی حامد میر نے ٹویٹر پر اطلاع دی ہے کہ کراچی میں تعینات رینجرز کے ذریعہ سندھ پولیس پر دباؤ ڈال کر کیپٹن صفدر اعوان کو گرفتار کرایا گیا۔ غالباً اس اقدام سے حزب اختلاف کے اتحاد میں دراڑ ڈالنا مقصود تھا کیونکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں نے اس واقعے کی ذمہ داری وفاقی حکومت اور اس کے درپردہ حامی عناصر پر ڈال کر اپنے اتحاد کی مضبوطی کا ثبوت دیا۔ چند گھنٹوں بعد کیپٹن صفدر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔


آنے والے ہفتوں میں حزب اختلاف کے اتحاد کی مزید آزمائش ہو گی۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے مقاصد مختلف ہیں اور یہ واضح نہیں کہ کیا یہ اتحاد قائم رہ سکے گا۔ پاکستان میں عام طور پر ایسی تحریکیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتیں۔ اور فی الحال مقتدر حلقوں کی پسندیدہ اصطلاح میں ”عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی پیج پر ہیں“ ۔ تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ اس یگانگت کی پائیداری کب تک برقرار رہ سکے گی۔


 

پچھلے ایک سال میں غذائی افراط زر میں کم از کم ایک تہائی کا اضافہ ہوا ہے۔ جنوب ایشیا خطے میں دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بے روزگاری اور معاشی ترقی کے اعداد و شمار بھی مایوس کن ہیں۔ پاکستان کے معاشی انحطاط کا آغاز کوویڈ 19 سے پہلے ہو چکا تھا۔ حزب اختلاف کے لئے ان حالات میں عوام کو متحرک کرنا آسان ہے۔ مزید برآں، نواز شریف اور منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دفاع پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تاکہ عمران خان کی حکومت اور عسکری مقتدرہ میں فاصلے پیدا ہوں اور سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار ہو سکے۔


یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ملک میں کوئی فوری تبدیلی آ سکے گی۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ حکومت طاقت کے بل پر عوامی احتجاج کا راستہ روک دے۔ اس ضمن میں نومبر کا مہینہ اہم ہو گا کیونکہ تب تک تمام فریق کو اپنے پتے ظاہر کرنا ہوں گے۔


اس سیاسی ہلچل سے جو بھی نتیجہ نکلے، فی الحال سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور سیاسی منظر غیر مستحکم ہوتا دکھائی دیتا ہے

مزیدخبریں