معراج کی رات بھی اپنی امت کی آسانی کے لئے نمازیں کم کروادیں ورنہ پورا دن نمازوں میں گزر جاتا ۔آخری وقت جب روح قفس عنصری سے پرواز کررہی تھی تب بھی اپنی امت کے غم میں نڈھال تھے اور روز قیامت بھی اپنی امت کی شفاعت کریں گے۔
تو ذرا اب اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا ہم اپنے پیارے رسول کی بات مان رہے ہیں، ان کے کئے گئے اعمال میں کون سا عمل ہے جو ہم اُس طریقے سے ادا کررہے ہیں جو اُس کا حق ادا کر سکے۔ کوئی ایک سنت اٹھا کر دیکھیں جو ہم نے آنحضرت کے طریقے پر ادا کی ہو۔
شادی ایک سنت رسول ہے اور حضور نے اسے برائیوں سے روکنے کا عمل قرار دیا ہے تو ذرا اردگرد نظر دوڑائیں ہمارے ملک میں یا عالم اسلام میں شادی شدہ افراد کس قسم کے گناہوں میں مبتلا ہیں۔ جو عیاشی ہم مسلمان کررہے ہیں شاید یہود ونصری بھی وہ دیکھ کر شرما جائیں ۔ایک مسلمان ملک میں رہنے والے جب قحبہ خانوں میں جاکر طوائفوں کے کوٹھے آباد کرتے ہیں تو شادی کا نظریہ ختم ہوجاتا ہے حالانکہ زنا کی سخت وعید آئی ہے ۔
مرد حضرات کو تو چھوڑ ہی دیں خواتین بھی ایک سے زیادہ مردوں سے اختلاط میں مبتلا ہیں تو کیوں کر بیماریاں نہیں آئیں گی ۔روازنہ مہنگائی کا رونا روتے ہیں کیا ہم نے خود چیزیں مہنگی کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا ۔آنحضرت تجارت کیا کرتے تھے اور صادق وامین کے لقب سے جانے جاتے تھے آج اسی تجارت کو ہم نے تہس نہس کردیا ہے۔ ناجائز منافع خوری میں ہم مسلمان سب سے زیادہ مبتلا ہیں ۔ایک چیز مہنگی ہوکر سستی ہوجائے تو واپس سستی نہیں کرتے البتہ سستی چیز مہنگی ہوجائے تو قیمت وہی وصول کرتے ہیں۔ ذخیزہ اندوزی میں ہم لوگوں کا ثانی نہیں۔ جھوٹ کاروبار میں اتنا زیادہ ہوگیا ہے بلکہ ہر جگہ ہی جھوٹ بولا جاتا ہے حالانکہ یہ مسلمان کی شان ہوا کرتی تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا اور جھوٹ بولنے والے کو منافقوں کی کیٹگری میں ڈالا گیا تھا مگر آج ذرا غور کریں اپنے فائدے کے لئے ہر جگہ ہم جھوٹ بولتے ہیں ۔جس سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہے ۔
ایک قتل کو انسانیت کے قتل سے تشبیہ دی گئی تھی مگر غصے کی حالت میں ہم خون کی ندیاں بہادیتے ہیں، پورے کے پورے خاندان کو ذرا سی بات پر ختم کردیتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہونے والی لڑائیاں قتل مقاتلے پر ختم ہوتی ہیں۔ وراثت میں بیٹیوں کو حصہ نہ دینا انہیں گھر کی دہلیز پر اس لئے بٹھائے رکھنا کہ جائیداد کا بٹوارہ ہوجائے گا ۔اُن سے شادی میں مشورہ نہ کرنا اور کولہوں کی بیل کی طرح باندھنا ۔ حالانکہ قران مجید اور حضور کے واضح احکامات میں یہ سب شامل ہے ۔ سودی کاروبار کو سب سے برا فعل تصور کرنا مگر ہم سودی لین دین کرتے ہیں یہ تاویل دے کر کہ اللہ کو میرا پتہ ہے وہ جانتا ہے کہ میری حالت پتلی ہے۔ انڈرپلی کے نام پر سود کے کاروبار میں خاندان کی تباہی اس جیسے وہ کون کون سے اعمال ہیں جو ہم مسلمان نہیں کرتے یہ صرف چیدہ چیدہ مسائل ہیں جن سے حضور نے منع کیا ہے مگر ہم ان میں مبتلا ہیں اور سنت رسول کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔
مگر جب بارہ ربیع الاول کا دن آتا ہے تو ہم عاشق رسول بن جاتے ہیں ہمارے اندر عشق کا جذبہ موجزن ہوجاتا ہے گزشتہ ایک دہائی سے اب ہم سڑکوں پر بھی آکر اپنے عشق سے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں حالانکہ ہمیں کہیں پر بھی تاریخ میں نہیں ملتا کہ پہلے ایسا کیا گیا ہو مگر اب دوسروں کے نقش قدم پر چل کر ہم برقی قمقموں سے مساجد اور گھروں کو سجاتے ہیں اور ایک رسم کے طور پر یہ دن منالیتے ہیں۔ ہم گھروں میں اس بات کا کوئی اہتمام نہیں کرتے کہ آنحضرت کے تعلیمات اور احکامات کے بارے میں اپنے بچوں کو بتائیں کہ حضور کی شخصیت کیسی تھی اگر وہ ایک سنت بھی زندہ کریں تو ہماری زندگی کا مقصد پورا ہوجائے گا ۔اللہ تعالی ہم سب کو حضور کے سنتوں کو زندہ کرنے کی توفیق عطا کرے کیونکہ برقی قمقموں سے عشق رسول عیاں نہیں ہوتا بلکہ کردار سے عشق رسول کا اظہار ہوتا ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین