نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خطابات میں کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ ان کی خواہشات ہوتی ہیں، وہ جیسا سوچتے ہیں وہ بول دیتے ہیں۔ اس وقت وہ سوچ رہے ہیں کہ انھیں اپنی مرضی کے جنرلز کی تقرریاں کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی پر ابھی تک کوئی نوٹی فیکیشن جاری نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان جو کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں کر پا رہے، اس لئے اپنی تقریر میں ان کی زبان پھسل گئی یا خواہش کا اظہار ہو گیا کہ جو اچھا جنرل ہو وہ اسے آئوٹ آف وے ترقی دے کر اوپر لا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے ادوار میں جو جنرل جنگ جیت کر آتا تھا اسے سپہ سالار بنا دیا جاتا تھا۔
پروگرام میں شریک عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان تقاریر میں جو حضرت خالد بن ولید کے حوالے دے رہے ہیں ان کے سامعین مختلف ہیں۔ ایک تو ان کے مذہبی رجحان رکھنے والے فالوورز اور پھر وہ حلقے جنہیں یہ پیغام دینا ہے کہ میں یہ مقدمہ عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
عنبر رحیم شمسی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں بلاگرز اور صحافی بتاتے ہیں کہ خاتون اول بشری' بی بی کے حوالے سے حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان سے متعلق ٹویٹ کریں یا پوسٹ ہو تو ایف آئی اے حکام فوری متحرک ہو کر ہٹوانے آ جاتے ہیں۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ عاصمہ شیرازی کا کالم کسی نے نہیں پڑھا، بس ایک حصے کو لے کر چڑھ دوڑے۔ بین الاقوامی صحافتی اداروں سمیت سب نے اس کی مذمت کی ہے، سب اس ہراسانی کو دیکھ رہے ہیں۔
مرتضی' سولنگی کا کہنا تھا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ ووٹنگ کے دن آزادانہ ووٹ ڈالنے دیئے جائیں گے یا نہیں؟ اگر تو ڈالنے دیئے گئے تو نتائج اور ہوں گے اور اگر اسی طرح بندے اٹھائیں جائیں گے تو جام کمال کا جام بھرا رہے گا اور کمال بھی جاری رہے گا۔