ٹی وی چینلوں نے شہباز گِل کی پیمرا کارروائی کی دھمکی ہوا میں اڑا دی

01:15 PM, 20 Sep, 2020

نیا دور
اپوزیشن اس ہفتے ایک بار پھر ناکام ہوئی۔ حکومت کے بلوں کو سینیٹ میں بار بار بلاک کرنے کے بعد بالآخر جب حکومت نے مشترکہ اجلاس بلا کر ان بلوں کو پاس کروانے کا فیصلہ کیا تو اپوزیشن کے 31 ارکان اس اہم موقع پر اجلاس سے غیر حاضر ہو گئے۔ ان میں وہ نام بھی شامل ہیں جو اپنی مفاہمت کی سیاست کے بارے میں اقوامِ متحدہ تک جا کر تقریر کر کے آئے اور وہ بھی شامل ہیں جو ببانگِ دہل عمران خان حکومت کو گرانے کے لئے دھرنے سے لے کر استعفوں تک ہر آپشن کے استعمال پر غور کرتے رہے۔ جی ہاں، ہمارا اشارہ سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطاالرحمٰن ہی کی طرف ہے۔ یہاں تک کہ وہ جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کے سب سے بڑے چیمپیئن ہیں، وہ بھی اس اجلاس میں شرکت نہ کر سکے۔ جی ہاں، ان کا نام علی وزیر ہے۔ لیکن اب بیچاری اس ٹوٹی پھوٹی اپوزیشن کی طرف سے اپنی خفت مٹانے کے لئے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ حکومت کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جوں ہی جمعہ کی شام یہ اعلان ہوا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے کانفرنس کے میزبان بلاول بھٹو زرداری نے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے ورچوئل خطاب کے لئے حامی بھی بھر لی ہے، حکومتی مشینری فوراً حرکت میں آ گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی رابطے شہباز گِل نے چینلز کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف ایک مفرور مجرم ہیں، انہوں نے اپنی بیماری سے متعلق جھوٹ بولا ہے اور اگر انہوں نے اے پی سی سے خطاب کیا اور اس کو نشر کیا گیا تو پیمرا حرکت میں آئے گا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو شہباز گل نے واضح انداز میں چینلز کو یہ تقریر نشر کرنے سے روکا ہے اور وہ بھی ٹوئٹر پر دنیا بھر کے سامنے۔ انہوں نے تادیبی کارروائی کی تنبیہ کرتے ہوئے چینلز کو صاف پیغام دے دیا ہے کہ حکومت ان کو نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

اس حوالے سے تین باتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ وزیر اعظم کے ایک معاونِ خصوصی کی جانب سے پیمرا کے استعمال کی دھمکی دیے جانا دراصل اپوزیشن اور قدرے غیر جانبدار میڈیا کے اس دعوے کو درست ثابت کرتا ہے کہ پیمرا حکومتی ایما پر ان کے خلاف ایکشن لیتا ہے اور یہ ادارہ آزاد نہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ شہباز گِل چونکہ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی رابطہ ہیں، اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، دراصل وزیر اعظم کے وژن سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو ان پر بھی بہت سے مقدمے قائم تھے لیکن ان کی جانب سے تقاریر بھی جاری رہیں اور ان کو ٹی وی چینلز پر بھی دکھایا جاتا رہا۔ ان پر پاکستان ٹیلی وژن پر حملے کا الزام تھا اور اس حوالے سے موجودہ صدر عارف علوی اور ان کے درمیان ایک آڈیو کال کی ریکارڈنگ بھی منظرِ عام پر آئی تھی جس میں صدرِ محترم پی ٹی وی حملے پر مبارکباد پیش کر رہے تھے جب کہ عمران خان صاحب اس کارکردگی پر ’اچھا ہے، اچھا ہے‘ کہہ کر انہیں سراہ رہے تھے۔ لیکن پیمرا نے ان کی تقاریر پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ تیسری بات یہ ہے کہ حکومت جو کہ بار بار نواز شریف کی سیاست ختم ہو چکے ہونے کا اعلان کرتی آئی ہے، حال ہی میں وزیر ریلوے شیخ رشید نے ایک مرتبہ پھر اعلان کیا ہے کہ نواز شریف سیاست سے باہر ہو چکے ہیں اور اب یا تو مسلم لیگ ش بنے گی یا پھر پورے شریف خاندان کی سیاست ختم ہو جائے گی، تو پھر ایسے حالات میں ایک تقریر سے حکومت کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ یہ محض ایک خطاب ہے، اسے روکنے کے لئے تو ظاہر ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی لیکن اس کو نشر ہونے سے روکنے کے لئے اگر ریاستی مشینری کو حکومت سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے، وہ بھی ایک ایسے شخص کے خطاب کے لئے جس کی سیاست بقول حکومتی وزرا کے ختم ہو چکی ہے تو شاید یہ اعلان بہت سی کمزوریوں کی چغلی کھا رہا ہے۔

اب تازہ ترین صورتحال تو یہ ہے کہ شہباز گل کی ساری دھمکیاں اور شہباز شریف کی ساری مفاہمت کی سیاست کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نواز شریف آئے اور چھا گئے۔ انہوں نے تقریر میں وہ کچھ کہہ دیا جس کی ان کے بڑے بڑے حامی بھی توقع نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے عاصم باجوہ کی کرپشن پر ہی نہیں، بطور ایک حاضر سروس جرنیل بھی ان پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا۔ انہوں نے ایک اور حاضر سروس جرنیل آصف غفور کی اس ٹوئیٹ پر بھی تبصرہ کیا جس میں انہوں نے بطور سربراہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے، وزیر اعظم ہاؤس سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے کو rejected قرار دیا تھا۔



یہ بھی پڑھیے: ’عاصم باجوہ نے بلوچستان میں سازش کی، ’ریاست کے اوپر ریاست‘ مسائل کی جڑ ہے‘







نواز شریف نے 1999 بھی یاد کیا، اور 1971 بھی۔ انہوں نے حمود الرحمٰن کمیشن پر بھی بات کی۔ انہوں نے ہر وہ موضوع چھیڑا جو ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو ناگوار گزرتا ہے۔ اور اپنی تقریر میں انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہمارا مقابلہ وزیر اعظم عمران خان سے ہے ہی نہیں۔ ہمارا مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو انہیں لے کر آئے۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں نمائندہ حکومتیں بننے نہیں دی جاتیں، اور بن جائیں تو ان کے سامنے ایک متوازی کئی گنا زیادہ طاقتور حکومت قائم کر دی جاتی ہے۔ ’’گیلانی صاحب نے اس کے لئے ’ریاست کے اندر ریاست‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ میں اسے ’ریاست کے اوپر ریاست‘ کہوں گا‘‘۔

اس تقریر نے جہاں ایک صفحے پر موجود دونوں قوتوں کو بیک وقت چیلنج کیا، وہیں شہباز گل کی پیمرا کارروائی کی دھمکیاں بھی دھری کی دھری رہ گئیں۔ صرف جیو نیوز نے نواز شریف کی تقریر کے حصوں کو mute کیا۔ باقی سب نے اسے چلایا۔ اب دیکھنا ہے کہ پیمرا اس پر کیا کرتا ہے۔

پیمرا ایک ریاستی ادارہ ہے۔ موجودہ حکومت ماضی میں اس پر یہ تنقید کرتے آئے ہیں کہ اس ادارے کے سربراہ ابصار عالم نواز شریف کے قریب رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ابصار عالم کے ہوتے ہوئے حکومت پر بے شمار تنقید ہوتی رہی اور پیمرا نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا، جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ابصار عالم، جو کہ خود ایک صحافی تھے، اس ادارے کو بڑی حد تک ایک آزادانہ پالیسی کے تحت چلا رہے تھے، اور یہی بالآخر ان کے ہٹائے جانے کی وجہ بھی بنا۔

یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہم اپوزیشن کو خاموشی کا بے شک جتنا مرضی طعنہ دیں، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مریم نواز اور نواز شریف کے انٹرویو، جلسے، جلوس اور پریس کانفرنسز ماضی میں سنسر کی جاتی رہی ہیں۔ اور وہ صحافی حضرات جو انہیں خاموشی کا طعنہ دیتے ہیں، وہ ان کی سنسرشپ پر کوئی آواز اٹھاتے دکھائی نہیں دیتے۔

اتوار کو ہونے والی اے پی سی میں نواز شریف کا خطاب پاکستان کے میڈیا چینلز کی آزادی اور پیمرا کی غیر جانبداری کا بھی ٹیسٹ ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ یہ دونوں اپنے اپنے امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں، آزادی اظہار رائے کا ہے، اور اسی میں جمہوریت کی بقا کا راز ہے۔
مزیدخبریں