اب محترم سلیم صافی صاحب نے جنگ اخبار میں ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے بھی بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کرم ایجنسی اور گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ خطرہ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے اور شیعہ سنی کو لڑانے کی منظم سازش کا ہے۔ لگتا ہے کہ انڈیا جیسے پاکستان کے ازلی دشمنوں اور دیگر بیرونی طاقتوں نے اس کے لئے طویل اور منظم منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ اگرچہ اہلِ تشیع کے اکابر علما اور مستند تنظیمیں یا پھر اہلِ سنت کے اکابر اور جماعتیں اس عمل کا حصہ نہیں اور پہلی مرتبہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر آگ بجھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کچھ ایسے عناصر سامنے آئے ہیں کہ جو اپنی نازیبا حرکتوں سے جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔
شاید سلیم صافی صاحب کو یہ علم نہیں کہ حال ہی میں مفتی تقی عثمانی محرم کے جلوسوں پر پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں اور مفتی منیب الرحمان کی جانب سے یزید کی طرف سے امام حسینؑ کے قتل کے حکم کی کوئی شہادت نہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
سلیم صافی مزید فرماتے ہیں کہ انڈیا جیسے دشمنوں نے بلوچستان کے علاوہ اب زیادہ نظریں گلگت بلتستان، بلوچستان، کرم ایجنسی اور کراچی جیسی جگہوں پر جما رکھی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان سب جگہوں کو ہمارا مقتدر اور حکمران طبقہ اِس آئینے میں نہیں، بلکہ وقتی سیاسی مفادات کے آئینے میں دیکھ رہا ہے۔ مثلاً گلگت بلتستان میں سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مسئلے کو قابو کررکھا تھا۔
وہ اس کالم میں تین دوست ممالک کے حوالے سے بھی کچھ فرماتے فرماتے رک گئے ہیں۔ کالم میں لکھا ہے کہ دوسری طرف ہمارے تین دوست ممالک بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا میں سرمایہ کاری کے ذریعے وہ اپنے قومی مفادات کی جنگ اور پراکسی وار کو پوری شدت کے ساتھ پاکستان منتقل کررہے ہیں جو یہاں فرقہ واریت کی شکل اختیار کررہی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ سلیم صافی جیسے نڈر صحافی کی جانب سے ان دوست ممالک کا نام کیوں نہیں لیا گیا جو اس فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کے لئے باقاعدہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
سلیم صافی کے اس تبصرے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ مجھے پاکستان تیرہویں صدی کا بغداد دکھنے لگتا ہے، جب ہلاکو خان کی تاتاری افواج نے بغداد کا محاصرہ کررکھا تھا تو وہاں غیرضروری فقہی مسائل پر مناظرے جاری تھے۔
اس وقت پاکستان کی کم وبیش یہی حالت ہے کہ ہر طرف سے خطرات ہیں لیکن حکمران خلیفہ المعتصم بنے ہوئے ہیں، سیاستدان، صحافی، مولوی، دانشور اور سب سے بڑھ کر ملک کے حقیقی مالک اسی طرح غیرضروری مناظروں میں لگے ہوئے ہیں جس طرح اس وقت کے بغداد کے علمائے کرام لگے تھے۔
لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ بیرونی دشمنوں کے علاوہ بھی بہت سی قوتیں ہیں جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جانے کے اس عمل میں ارادی یا غیر ارادی طور پر شامل ہیں۔ وہ جماعتیں جو ماضی میں دفاعِ پاکستان کونسل جیسی تنظیموں کا حصہ رہی ہوں، ان سے یہ امید تو نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ بھارت سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف کام کریں گی۔ دفاعِ پاکستان کونسل میں تو پاک فوج کے سابق سینیئر جرنیل بھی شامل تھے تو وہ کسی بھارتی ایجنٹ جماعت کو تو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ تو اب کیا کریں ان اعلانات کا جو انہی جماعتوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں؟ جب یہ پمفلٹ بانٹتی ہیں جن میں اہل تشیع کے خلاف نفرت انگیز مواد شامل ہوتا ہے، جب یہ سڑکوں، بازاروں میں دیواروں پر شیعہ مخالف نعرے لکھتی ہیں تو کیا یہ بھارت کے ایما پر یہ سب کر رہی ہوتی ہیں؟ اگر ہاں تو یہ تو چند سال قبل تک پاکستان کے دفاع میں پیش پیش تھیں۔ متحدہ سنی کونسل نامی حال ہی میں بنی تنظیم میں قریب دو درجن ایسی تنظیمیں شامل ہیں جو کہ اہلحدیث یا دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان سب نے اسلام آباد میں مشترکہ ریلی نکالی اور اسے ہماری انتظامیہ نے اجازت دی۔ انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق 20 سے 25 ہزار افراد نے اس ریلی میں شرکت کی۔ اس سے کئی گنا بڑی ریلی کراچی میں نکالی گئی، اس دوران ایک امام بارگاہ پر حملہ بھی ہوا۔ اگر بھارت گلگت بلتستان اور کرم ایجنسی میں سرگرم ہے تو اسلام آباد اور کراچی میں کون یہ سب کر رہا ہے؟ ان ریلیوں میں کالعدم تنظیموں کے جھنڈے بھی نظر آئے، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے تھے؟
سلیم صافی صاحب سے التجا ہے کہ یہ بیرونی سازش والی تھیوریاں عوام میں رائج کرنے کی کوشش نہ کریں۔ دشمن یا ’تین دوست ممالک‘ اگر پاکستان میں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں تو اس کے لئے آلہ کار ہمارے اپنے ملک کے باسی ہیں۔ آپ دشمن سے اچھی امید نہیں رکھ سکتے لیکن ذرا سوشل میڈیا کھول کر دیکھیں کہ کس قسم کی مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی ہے اور پھر بتائیں کہ ان لوگوں میں سے کتنوں کو PECA کے کسی سیکشن کے تحت گرفتار کیا گیا ہے؟ کیا یہ سارے سیکشن، سارے قوانین قابو میں نہ آنے والے صحافیوں کے لئے ہی ہیں؟