بخاری، رقم 4304
مخذوم قبیلہ کی فاطمہ بنت الاسود نے جب چوری کا ارتکاب کیا، تو چور کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر تھی، قریش کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ اللہ کے رسولؐ سے کون کہے کہ اس عورت سے نرمی برتی جائے۔ حضورؐ سے نسبت کی بنا پر اسامہ بن زیدؓ کو اس مقصد کے لئے تیار کر کے مخذومی عورت کو حضورؐ کے سامنے پیش کر دیا گیا مگر اسامہؓ نے جب اس کی سفارش کی تو آپؐ کا چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کر رہے ہو؟ اسامہؓ نے معذرت کر لی۔ اس موقع پر آپؐ نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا کے بعد لوگوں سے جو خطاب فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے: اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ایک عام آدمی اُن سے خطبے کے دوران ان کے کُرتے کے بارے میں سوال کرتا ہے اور وہ خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے اس کی وضاحت پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ خریدا، کچھ عرصہ بعد وہ لاغر و کمزور اونٹ فربہ ہو گیا، جناب عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹے کی سرزنش کی اور کہا لوگ کہیں گے خلیفہ وقت کے بیٹے کا اونٹ ہے اس لئے فربہ ہے۔ فوراً حکم دیا کہ اونٹ بیت المال میں جمع کروایا جائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ جب کسی کو کسی صوبے یا شہر کا والی مقرر کرتے تھے تو پہلے اس کی جائیداد اور مال کا حساب لے لیتے تھے اور جب وہ اپنے منصب سے الگ ہوتے یا ان کے متعلق دوران تقرر اگر ان کو یہ علم ہو جاتا کہ ان کے پاس غیر معمولی دولت جمع ہو گئی ہے تو وہ اس کا محاسبہ کرتے اور زائد دولت بیت المال میں جمع کروا دیتے۔ ان کے دور میں گورنروں کو قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں سزا بھگتنا پڑی۔ فاتح مصر عمرو بن العاص کے بیٹے عبداﷲ کو (جس نے کسی شخص کو بلاوجہ مارا تھا) آپؓ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے مگر کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ مخالفت کر سکے۔ فاتح شام حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کو معزول کیا۔ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ سے جواب طلبی کی۔
اللہ کا شکر ہے اس زمانے میں دین اسلام کو اور حجاز مقدس کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا، حالانکہ یہود و نصاریٰ کو اس وقت کی اسلامی سلطنت سے زیادہ خطرہ تھا۔ کیونکہ سلطنتیں فتح کی جا رہی تھیں، جب جناب عمر رضی اللہ عنہ اپنے سپہ سالاروں اور گورنروں کا محاسبہ کر رہے تھے۔ جناب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تو رشتہ دار بھی تھے اور انہیں جنگ کے دوران معزول کیا گیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی کہہ سکتے تھے کہ لشکر کا مورال گر جائے گا، ہم جنگ ہار جائیں گے، لیکن نہیں۔ اصول کی پابندی لازم تھی۔
سورتہ الحج میں اللہ فرماتا ہے:
’’پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں بلکہ وہ دل اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں۔
سورہ الاعراف میں ارشاد ہے:
’’اور کتنی ایسی بستیاں تھیں، جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ تب آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران یا دوپہر کے وقت جب وہ آرام کر رہے تھے۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب آ گیا تو ان کا کہنا یہی تھا کہ ہم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔‘‘ (آیات 4، 5)
آگے فرمایا۔ ’’کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران آ جائے اور وہ سوئے پڑے ہوں؟ کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب چاشت کے وقت آ جائے اور وہ کھیل میں لگے ہوں؟‘‘
عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دشمن بستیاں ویران کر دے۔ عزت و آبرو برباد کر دے۔ قوم کو اپنا غلام بنا لے۔ عزت و آبرو تو ہم لوگوں کی تار تار ہو چکی ہے، کبھی اس در کبھی اس در کبھی دربدر، کبھی امریکہ کے ہر اول دستہ کے غلام، کبھی چین کے ہر اول دستہ کے غلام، علما و ذاکر حضرات کبھی سعودی عرب کی چوکھٹ پر اور باقی کبھی ایران کی چوکھٹ پر، الغرض ندامت و پشیمانی ہی ہمارا مقدر ہے، لیکن عبرت ہم نے حاصل نہیں کرنی۔
یہ بات تو طے ہے کہ احتساب عام آدمی کا ہی ہوتا ہے، اور ہوتا رہے گا۔ عام آدمی اگر ایک مہینہ بجلی کا بل نا دے تو واپڈا کی ضلعی انتظامیہ اس کا میٹر کاٹ جاتی ہے۔ جب کہ سرکاری دفاتر اور ملازم دل کرے تو بل دے دیں، نہیں تو نادہندہ بن کر بھی بجلی استعمال کرتے رہیں، کیونکہ ان کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ عام آدمی اگر کسی جرم میں پکڑا جائے تو پولیس اس سے وہ جرم بھی قبول کروا لیتی ہے، جو اس نے کیے نہیں ہوتے۔ جب کہ امرا جرم کر کے ثبوت نہ ہونے اور نامکمل تفتیش کی بنیاد پر رہا ہو جاتے ہیں اور اگر اس سے بھی کام نہ بنے تو ڈیل و ڈھیل، پلی بارگین اور دیت کا قانون ہی کافی ہے۔ نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، علیم خان، عامر کیانی، جہانگیر ترین، سراج درانی، زرداری صاحب، مجید اچکزئی اور مزید ناموں کے لئے فہرست چھاپنا پڑے گی۔ اب تو اس فہرست میں ان کے نام بھی آ سکتے ہیں جو اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی حدود کے نگہبان ہیں۔ عام آدمی ٹیکس نہ دے تو حکومت جائیداد کی قرقی کا فرمان جاری کر دیتی ہے، جب کہ امرا اپنی ناجائز زمین کو بھی ریگولرائز کروا لیتے ہیں، بنی گالہ، چک شہزاد اور بحریہ ٹاؤن کے معاملات ہی دیکھ لیں۔
پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر تھا، مگر اسلامی اصولوں کے استعمال پر پابندی ہے، کیونکہ بقول ہمارے استاد محترم پاکستان اور مسلم ممالک میں جس دن اسلامی نظام نافذ ہو گیا، اس دن ملک میں ججز اور جلادوں کی قلت پیدا ہو جائے گی۔
لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں، سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں، دوسرا میرے پاکستانیو، ہم ججز اور جلاد درآمد کر لیں گے، جس کے ہم ماہر ہیں، اب تو ویسے بھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو گیا ہے۔