ان لوگوں نے اپنی اپنی سیاسی جماعت پر مکمل گرفت رکھی ہوئی ہے۔ جب زرادی صاحب صدر تھے تو پارٹی معاملات فریال تالپور کے پاس تھے ۔ بلاول زیر تعلیم تھے تو سب وہ خود دیکھ رہے تھے۔ نواز شریف وزیراعظم تھے تو حمزہ شہباز اور مریم نواز وفاق اور پنجاب میں معاملات دیکھ رہے تھے ، عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا کوئی بہت قریبی تعلق دار پارٹی کے معاملات نہیں دیکھ رہا۔ بچے انکے برطانیہ میں ہیں جن کو پاکستان کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بھائی ان کا کوئی ہے نہیں، بہنیں اپنے گھروں میں مگن ہیں باقی انکے کزنز کے ساتھ کوئی مثالی تعلقات نہیں ہیں۔
ایک تناظر میں دیکھا جائے تو جمہوریت میں مورثی بنیادوں پر سیاست کرنا کوئی اچھا فعل نہیں، یہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔ مگر بدقسمتی سے برصغیر کی سیاسی روایت یہی ہے۔ بھارت، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں یہی روایت چلی آرہی ہے۔ عمران خان نے اسکے برعکس سیاسی جماعت بنا کر اپنی سیاست شروع کی۔ 22 سالہ جہدوجہد اور بے شمار سیاسی سمجھوتوں کے بعد اقتدار حاصل کر لیا ،یہ انکی کامیابی تھی انہوں نے ایک اسیے سماج میں سیاسی کامیابی حاصل کی جو مورثی سیاست کی گھمن گھریوں میں الجھا ہوا تھا۔ اگر آپ آپ اس میں کامیاب ہو گئے تھے تو آپ کو اپنے محلض سیاسی و نظریاتی کارکنوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا جو آپکے اقتدار کو اپنے حصار میں رکھتے اور آپ سے عوام دوست فیصلے کرواتے تاکہ آپکی عوامی مقبولیت قائم رہتی مگر یہاں عمران خان غلطی کر گئے۔
عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد نظریاتی کارکنوں سے ایسے دور ہوئے کہ ان سے ملنا ہی چھوڑ دیا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ اسے دی جو پاکپتن کی درگاہ کی غلام گردشوں میں رہنے والوں کا منظور نظر تھا اور اور ان کو نظر انداز کر دیا گیا جو ان کے ساتھ سالوں سے اپنا تن من اور دھن لگا رہے تھے۔ تحریک انصاف کے بہت ہی مستند ذرائع کے مطابق جب پنجاب کے ایک سینئر وزیر جو عمران خان کے بہت قریبی تعلق دار تھے نے جب دو ماہ قبل وزیراعظم آفس میں وزیر اعلیٰ کی کچھ بدعنوانیوں کی بات کی تو وزیراعظم نے ان کو کہا آپ کاروباری شخصیت ہیں اپنے کاروبار پر دھیان رکھیں مجھے سب پتہ ہے۔ یہ بات اس سینئر وزیر کو ہرٹ کر گئی اور انہوں نے استعفی دے دیا جو انہوں نے ابھی تک منظور نہیں کیا۔
حالیہ دورہ لاھور میں وزیراعظم عمران خان نے اس سینئر وزیر سے ملاقات بھی نہیں کی اور ان کا استعفیٰ منظور بھی نہیں کیا۔ پچھلے دس دنوں سے وہ سینئر وزیر اپنے دفتر بھی نہیں گیا اور آج تک کپتان کے حکم کا انتظار کر رہا ہے۔
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق لاھور کے حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں تحریک انصاف کا نظریاتی کارکن گھر سے نکلا ہی نہیں اور اتحابی مہم سے لاتعلق رہا جس کے نتیجے میں نون لیگ کلین سویپ کر گئی۔
اگر صورت حال ایسے ہی چلتی رہی تو 2023 کے الیکشن میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ، وزیراعظم عمران خان کو بہت سے ہمدرد صحافی اور سیاسی لوگ کہہ رہے تھے کہ پچھلے سال وزیر اعلیٰ پنجاب کو تبدیل کر دیں۔ چیف سیکرٹری یا آئی جی بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر عمران خان اپنی روایتی نرگسیت اور اس عقیدے کے زیر اثر جو پاکپتن کی درگاہ کی غلام گردشوں کا محتاج ہے، اس موضوع پر بات کرنے کو تیار نہیں حتٰی کہ عسکری قیادت کے مشورے بھی نہیں سنتے۔ پنجاب میں اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہے تو کیا وہ مزید نقصان برداشت کرنے کے قابل نہیں رہ سکیں گے۔
لہذا پچھلے تین سالوں میں تحریک انصاف کے جن نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ان سے ملاقاتیں شروع کریں، لاھور میں گورنر پنجاب کو سیاسی طور پر فعال کریں، علیم خان کے تحفظات دور کریں ورنہ جو کامیابی آپ کو مورثی سیاست کو ختم کرنے کے بعد ملی ہے وہ نظریاتی کارکنوں کو دور کرنے کے بعد ختم ہو سکتی ہے۔