عدالت نے مزید کہا کہ نوٹسز جاری کرنا غیر ضروری ہراساں کرنا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر نے جان بوجھ کر نوٹس جاری کیا تھا؟
عثمان وڑائچ ایڈوکیٹ نے کہا کہ جب انہوں نے نوٹس ایشو کیا تو اس کی کوئی بنیاد ہو گی، وہ بتائی جائے ، اس پر جواب دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایف آئی اے مان گیا ہے کہ نوٹس غلط طور پر جاری ہوا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ایک غلطی ہوئی ہے تو اچھی بات ہے کہ اس کو سدھارا بھی گیا ہے لیکن آئندہ کے لیے چیزوں کو درست ہونا چاہئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ابصار عالم کی ایف آئی اے کال اپ نوٹس کے خلاف درخواست نمٹا دی جائےجس پر ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہم اس کیس کو ابھی نہیں نمٹا رہے اور اس درخواست کو ایف آئی کے خلاف دیگر درخواستوں کے ساتھ 27 ستمبر کو دوبارہ فکس کیا جائے۔
ایف ائی اے کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹس اور عدالتی کاروائی پربات کرتے ہوئے صحافی اور سابق چئیرمین پیمرا نے کہا کہ ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرنے والے شخص کے کام اور ان کی سیاست میں مداخلت پر بات کرنا کس جرم کے تخت ریاست سے غداری ہے۔ لیکن ہمارے پاس کافی معلومات ہے کہ ایف آئی اے کے کن افسران پر کس کی جانب سے دباؤ ہے اور وہ یہ نوٹسز کیوں جاری کررہے ہیں۔
ابصار عالم نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کے کئی افسران ایسے ہیں جنھوں نے دباؤ میں آنے سے انکار کیا اور غیر قانونی نوٹسز جاری کرنے سے انکار کیا لیکن کچھ افسران ایسے ہیں جنھوں نے دباؤ میں اکر نوٹسز جاری کئے اور ہمیں ان افسران کا پتہ ہے اور جنھوں نے دباؤ ڈالا ان کا بھی پتہ ہے۔
ابصار عالم نے مزید کہا کہ آج عدالت نے واضح کیا کہ اظہار رائے کی آزادی اہم ہے اور اس کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ابصار عالم نے مزید کہا کہ عدالت نے بھی واضح کیا کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ملازموں پر تنقید کرنا ریاست سے غداری کیسے ہوسکتی ہے۔ ابصار عالم نے مزید کہا کہ یہ کیس ابھی کاروائی کے مراحل میں ہے اور اس پر باقاعدہ طور پر فیصلہ جاری نہیں ہوا کیونکہ عدالت نے ائندہ سماعت کے لئے اس کیس کو رکھا ہے۔ ابصار عالم نے مزید کہا کہ عدالت نے بھی یہ کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جاری کئے جانے والے نوٹسز ہراساں کرنے کے علاؤں کچھ نہیں اور ایف آئی اے نے اس پر معافی بھی مانگی لیکن میں یہ بتاتا چلو کہ جو شخصی آزادیاں ہمیں ائین نے دی ہے ہم ان کا استعمال کرتے رہینگے۔