سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگ صحافیوں کو کیوں ٹرول کرتے ہیں؟

سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگ صحافیوں کے لئے ایک مستقل خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ بالخصوص حکومتوں کی جانب سے اس مد میں لوگوں اور کارکنوں کو صحافیوں کے خلاف مہم چلانے کے لئے ابھارنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا ونگز کو بھی قانون کے ضابطے میں لایا جائے۔

04:26 PM, 20 Sep, 2023

فہیم اختر

پاکستان میں صحافیوں کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر پہ صحافیوں کی تصاویر شیئر کرنا اور انہیں غلط رنگ دینا معمول بن گیا ہے۔ صحافی اب خبر دینے سے قبل سوشل میڈیا پر مخالف لوگوں اور جماعتوں کے ردعمل کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ پاکستان میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں صحافیوں کے خلاف منظم مہم چلائی گئی اور ان کی کردار کشی کی گئی۔ گلگت بلتستان بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ ہر وہ صحافی سوشل میڈیا پر منفی مہم کا سامنا کر رہا ہوتا ہے جس کی خبر کسی بھی فرد یا سیاسی جماعت کے خلاف جاتی ہو۔

آج نیوز کے ساتھ گلگت سے منسلک صحافی عبدالرحمان بخاری کہتے ہیں کہ صحافت کی مکمل آزادی دنیا بھر میں ممکن نہیں ہے۔ کسی نہ کسی قسم کے ایسے ہتھکنڈے ہر جگہ استعمال کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے نظام کو اپنے قابو میں رکھ لیا جائے۔ گلگت بلتستان میں گذشتہ ادوار میں جب حکومت یا کسی سیاسی تنظیم کے خلاف خبر لگتی تھی تو متعلقہ افراد اپنی وضاحت دے کر معاملے کو ٹھنڈا کرتے تھے اور شاذ و نادر ہی ایسا واقعہ پیش آتا تھا جہاں پر خبر کی بنیاد پر صحافی یا اخبار کے خلاف کیس دائر کر کے عدالت میں چلے جاتے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تو گلگت بلتستان میں نئی روایت کی بنیاد ڈالی کہ جو صحافی خبر چلائے اس کے خلاف ایسی منظم مہم چلاتے تھے کہ بندہ سوشل میڈیا تک نہیں دیکھ سکتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے سوشل میڈیا پر اشارتاً خبر دے دی کہ 'کھچڑی پک رہی ہے' کیونکہ اس وقت وزیر اعلیٰ خالد خورشید کے خلاف عدم اعتماد کے لئے سر جوڑے جا رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ ہوشیار اور چوکنے ہو جاتے، الٹا انہوں نے میرے خلاف باقاعدہ مہم چلائی۔ اچانک فیس بک پر ایسے ایسے لوگ برآمد ہوئے جن کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور گالم گلوچ سے لے کر تمام اخلاقی حدوں کو پار کر بیٹھے۔ سب سے نرم وہ لوگ تھے جو مجھے 'لفافہ' اور 'پی ڈی ایم کے ترجمان' کا خطاب دینے لگے۔

سوشل میڈیا کی مقبولیت کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کی موجودگی ان پلیٹ فارمز پر بڑھ گئی ہے۔ جن کا ایک مقصد ان صحافیوں کی کردار کشی کرنا سامنے آیا ہے جو ان کی جماعت یا حکومت کے خلاف مواد عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ پاکستان میں صحافی اسد طور 25 مئی 2021 کو اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہوئے جب تین افراد، جن کی شناخت نہیں ہو سکی، ان کے گھر میں داخل ہوئے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسی سال 20 اپریل کو حکومتی ناقد صحافی ابصار عالم کو ایک پارک میں چہل قدمی کے دوران گولی ماری گئی۔ اسی طرح صحافی مطیع اللہ جان کو اس وقت اغوا کیا گیا جب انہوں نے ایک دن بعد سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا۔ 21 جولائی 2020 کو مطیع اللہ جان کا اغوا بھی سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں اور تجزیوں کی بنیاد پر ہوا تھا جنہیں چند گھنٹوں بعد چھوڑ دیا گیا۔

گلگت سے تعلق رکھنے والے صحافی شبیر میر جو ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ ہیں، اس وقت تحریک انصاف کی ٹرولنگ ٹیم کی زد میں آ گئے جب انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے خلاف جعلی ڈگری کی خبر نشر کر دی تھی۔ کئی روز تک شبیر میر کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم جاری رہی۔ شبیر میر کہتے ہیں کہ بطور صحافی ہم ایسی صورت حال کے لئے ویسے بھی تیار رہتے ہیں۔ اس طرح کی منظم مہم چلتی رہتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ جب ان کے خلاف کوئی لفظ بھی سامنے آئے تو فوراً مہم شروع کر دیتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اتنا فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کی تربیت کرنی چاہئیے کہ الزام تراشی کیا ہوتی ہے، کارکنوں کو غلط پٹی پڑھائیں گے تو وہ آگے جا کر کیا کریں گے۔ صحافتی تنظیموں کو بھی اس وقت صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے اور انہیں اعلان کرنا ہو گا کہ صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان گلگت بلتستان کے کوآرڈینیٹر اسرار الدین اسرار کہتے ہیں کہ ہم اپنے طور پر ایسے موضوعات اور امور پر گہری نظر رکھتے ہیں کیونکہ اظہار رائے کی آزادی قانون و آئین نے دی ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان میں اس طرح کی منفی منظم مہم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر وہ صحافی اس کا نشانہ بنا ہے جو حکومت اور سیاسی پارٹیوں کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم اس کی رپورٹ بناتے ہیں اور سالانہ رپورٹ میں چھاپتے ہیں جن میں تشدد کے کیسز کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ گذشتہ سال 10 سے زائد صحافیوں کو اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔

گلگت پریس کلب کے صدر خورشید احمد نے سیاسی جماعتوں پر واضح کیا کہ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں اور صحافیوں کے سامنے لا کر کھڑا کرنے کی پالیسی ترک کریں۔ پریس کلب ہمیشہ اپنے صحافیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ اکثریتی کیسز ایسے ہی ہیں جن کی صلح صفائی متعلقہ صحافی کی مشاورت کے ساتھ پریس کلب کے ذریعے ہوئی ہے۔ صحافیوں کو بھی ہم تربیت دے رہے ہیں اور استعداد کار میں اضافے پر کام کر رہے ہیں کہ وہ جھوٹی خبر نہ دیں اور خبر میں ذاتی خیالات کو بھی شامل نہ کریں۔

سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس سے قبل اسمبلی کو بھی سنجیدگی کے ساتھ نہیں چلایا گیا ہے۔ اب کی بار اسمبلی اپنے تمام اختیارات کو استعمال کرے گی اور حل طلب تمام مسائل پر اسمبلی اپنا کردار ادا کرے گی۔ جہاں تک صحافیوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے تو اسمبلی اس پر قانون سازی کرے گی۔ اس وقت کچھ بل اسمبلی میں جمع ہوئے ہیں جو مراحل سے گزر کر ٹیبل ہو جائیں گے جس کے بعد باقاعدہ منظوری ملے گی۔

سیکرٹری محکمہ اطلاعات و نشریات ضمیر عباس نے بتایا کہ جب سے میں نے ذمہ داری سنبھالی ہے تب سے اب تک کوئی ایک بھی ایسا کیس مجھ تک نہیں پہنچا کہ جس میں صحافیوں کے خلاف کوئی منظم مہم چلائی گئی ہو لیکن یہ کوئی خلاف توقع نہیں ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنایا جائے اور ان کی کردار کشی کی جائے۔ محکمہ اس حوالے سے صحافیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کو تیار ہے۔ پالیسیز سے لے کر عمل درآمد تک صحافیوں کو درپیش مسائل کو دور کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت کے رکن اشفاق احمد ایڈووکیٹ نے اس امر کی تصدیق کی کہ صحافیوں کو خبر بریک کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے اور ہر خبر کے الگ نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کو روکنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں جنہیں گلگت بلتستان تک توسیع دینے یا پھر جی بی اسمبلی کو خود سے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگ صحافیوں کے لئے ایک مستقل خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ بالخصوص حکومتوں کی جانب سے اس مد میں لوگوں اور کارکنوں کو صحافیوں کے خلاف مہم چلانے کے لئے ابھارنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا ونگز کو بھی قانون کے ضابطے میں لایا جائے۔ جعلی پیجز کو بند کرایا جائے اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ اقدامات کئے جائیں۔

سابق سپیکر فدا محمد ناشاد سے ان کے نمبر پر رابطہ کی متعدد بار کوشش کی گئی لیکن وہ دستیاب نہیں ہوئے اور انہیں پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی گئی تاہم کامیابی نہیں ملی۔

مزیدخبریں