ڈاکٹر بننے کے خواہشمند طلبہ کو کن باتوں کا دھیان رکھنا چاہئیے؟

پاکستان میں کم و بیش ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی بہتات اور بیرون ملک سے ڈاکٹر بن کر آنے والوں کی وجہ سے پاکستان میں میڈیسن کا شعبہ بھی شدید ابتری کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں ڈاکٹرز کے لیے سرکاری نوکری ہے اور نا ہی کوئی سروس سٹرکچر۔ ٹریننگ سٹیٹس بھی نا ہونے کے برابر ہے۔

07:05 PM, 20 Sep, 2023

ڈاکٹر شافع صابر

پورے پاکستان میں میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے ایم ڈی کیٹ ہو چکا ہے۔ آفیشل رزلٹ بھی آ گیا ہے۔ پاکستان بھر کے سرکاری میڈیکل کالجز میں تقریباً 8 ہزار سیٹوں کے لئے دو لاکھ طلبہ و طالبات نے یہ ٹیسٹ دیا جبکہ پنجاب میں تین ہزار سیٹوں کے لیے کوئی 62 ہزار سٹوڈنٹس نے ٹیسٹ دیا۔

پاکستان میں کم و بیش ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی بہتات اور بیرون ملک سے ڈاکٹر بن کر آنے والوں کی وجہ سے پاکستان میں میڈیسن کا شعبہ بھی شدید ابتری کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں ڈاکٹرز کے لیے سرکاری نوکری ہے اور نا ہی کوئی سروس سٹرکچر۔ ٹریننگ سٹیٹس بھی نا ہونے کے برابر ہے، اسی وجہ سے 90 فیصد پاکستانی ڈاکٹرز بیرون ملک دھڑا دھڑ جا رہے ہیں۔ ناکام حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے آج کا ڈاکٹر اس سسٹم سے مایوس ہو چکا ہے، اسی وجہ سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔

میڈیکل کالجز میں جن طلبہ کے داخلے اب ہوں گے، ان کو پیشگی مبارک باد۔ یہاں سے آپ ٹینشن، انگزائٹی اور ڈاکٹرز کے مستقبل سے متعلق مایوسی کے ایک ایسے چکر میں پڑ جائیں گے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ تو آپ پہلے دن سے ہی یہ سوچ لیں کہ میں نے ڈاکٹر بن کر باہر نکلنا ہے، اگر نہیں نکلیں گے تو مزید مایوس ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ جن طلبہ کا سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ نہیں ہو گا وہ کیا کریں گے؟ کیا پرائیویٹ میڈیکل کالجز یا بیرون ملک کے میڈیکل کالجز میں داخلہ لینا چاہئیے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے، نہیں۔ ہرگز نہیں لینا چاہئیے۔ فارن میڈیکل کالجز میں داخلہ لینا تو گویا عذاب عظیم کو خود دعوت دینا ہے۔ پتا نہیں کہ  NEB/NREکا امتحان پاس ہو، کب ہاؤس جاب ملے، کب RMP (پریکٹس کرنے کی اجازت) ملے، نوکری ملنا تو بہت دور کی بات ہے۔ بیرون ملک کی کافی میڈیکل یونیورسٹیز کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) بلیک لسٹ کر چکی ہے۔ ان یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل طلبہ پاکستان میں پریکٹس نہیں کر سکتے۔ لیکن عوام الناس کم فیس کے لالچ اور ایجنٹوں کی باتوں میں آ کر یہاں پھنس جاتے ہیں اور بعد میں روتے ہیں۔ ایسی گھوسٹ یونیورسٹیز کے طلبہ بعد میں پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے میڈیکل سے متعلقہ کسی بھی امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے۔

اب آتے ہیں پرائیویٹ کالجز کے ایم بی بی ایس کی طرف۔ سال کی کم سے کم فیس 25 لاکھ روپے ہے اور بعد میں نوکری ملے گی بھی یا نہیں، اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز پاکستان میں اب مافیا کا روپ دھار چکے ہیں جو کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) نے اس مافیا کو لگام ڈالنے کی کوشش کی تھی، فکس فیس سمیت سینٹرلائزڈ داخلے کیے تھے۔ لیکن جیسے ہی پی ایم ڈی سی بحال ہوئی، یہ مافیا ماضی کی طرح پھر سے شُتر بے مہار ہو گیا۔ اب ایک ایک سال کی فیس 30 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بعد میں یہی مافیا ہاؤس آفیسرز (اپنے ہی کالج کے گریجویٹس) کو پوری تنخواہ نہیں دیتا، بغیر معاوضے کے ٹریننگ پہ رکھتا ہے۔ جب یہی ڈاکٹر فیلڈ میں آتے ہیں تو اتنی زیادہ سیچوریشن دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں اور پھر خود کو کوستے ہیں۔

اب جب ایم ڈی کیٹ ہو چکا ہے تو پاکستان کی 90 فیصد سرکاری یونیورسٹیز کے داخلے بند ہو چکے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ کی تیاریوں میں مصروفیت کی وجہ سے سٹوڈنٹس کوئی متبادل نہیں رکھتے، یوں سرکاری یونیورسٹیز میں داخلوں کی تاریخ بھی گزر جاتی ہے۔ اب جن کا داخلہ نہیں ہو گا یا تو وہ پانچ چھ مہینے فارغ رہیں گے، یا پھر مہنگی اور غیر معیاری پرائیویٹ یونیورسٹیز میں داخلہ لے لیں گے۔ یہ بھی پاکستانی نظام تعلیم اور پالیسی میکرز کی ناکامی کی جیتی جاگتی مثال ہے، لیکن کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

پاکستان میں اب ڈاکٹر بننا صرف ایک سٹیٹس سمبل بن کر رہ گیا ہے۔ بذات خود ایک ڈاکٹر ہو کر بھی ڈاکٹرز کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ ہمارے بڑوں کی فضول پالیسیوں کی وجہ سے ایک نوبل پروفیشن کا کیا حال ہو کر رہ گیا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ لوگ ڈاکٹر بن کر 25 ہزار پر ایم او شپ کر رہے ہیں۔ بیرون ملک ٹیسٹوں کی فیس دینا اب تنخواہ سے ممکن ہی نہیں۔ بعد میں سنٹرل انڈکشن پالیسی کے نام پر ٹریننگ سٹیٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی وجہ سے ینگ ڈاکٹرز میں اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود پرائیویٹ اور فارن میڈیکل کالجز میں لوگ دھڑا دھڑ داخلہ لے کر ہر سال ڈاکٹری کی ڈگری لے کر مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹرز میں بے روزگاری اور مستقبل کے بارے میں پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب تک پرائیویٹ اور فارن میڈیکل کالجز کے بارے میں کوئی حکومتی پالیسی نہیں بنائی جاتی، تب تک اس صورت حال میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔

ایف ایس سی پری میڈیکل کے وہ طلبہ و طالبات جو سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ نہیں لے سکے، انہیں درج ذیل باتوں کا لازمی دھیان رکھنا چاہئیے؛

1۔ پرائیویٹ اور فارن میڈیکل کالجز میں ایم بی بی ایس میں داخلہ ہرگز نہ لیں۔ یقین مانیے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانے کے لیے کروڑوں لگانا ہرگز عقل مندی نہیں۔

2۔ اگر آپ کو فارن یا پرائیویٹ ایم بی بی ایس کرنے میں سے انتخاب کرنا ہو تو ہمیشہ پاکستان میں پرائیویٹ ایم بی بی ایس کریں۔ اس سے آپ مستقبل کی کئی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر کسی فارن میڈیکل کالج میں داخلہ لینا ہے تو اس میں لیں جو کہ پی ایم ڈی سی کی A لسٹ میں ہو۔ B یا C لسٹ والے کالجز میں ہرگز داخلہ نہ لیں۔

3۔ آپ کا کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ ہو، سال اول سے ہی بیرون ملک کے ٹیسٹوں کی تیاری شروع کر دیں۔

4۔ اس وقت سب سے زیادہ ایمرجنگ فیلڈ بائیو ٹیکنالوجی ہے، جس کی مانگ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں داخلہ لینے کی لازمی کوشش کریں۔

5۔ ڈی فارمیسی، ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی اور ڈی وی ایم کی مانگ بیرون ملک بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں آپ ڈی فارمیسی کے بعد کامیاب بزنس مین بن سکتے ہیں۔

6۔ الائیڈ ہیلتھ سائنسز خصوصاً میڈیکل لیب ٹیکنالوجی اور آپریشن تھئیٹر ٹیکنالوجی کے بعد آپ کو پاکستان میں نوکری آسانی سے مل سکتی ہے۔

7۔ ڈگری سے زیادہ سکلز پر زور دیں۔ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے تو فری لانسنگ لازمی سیکھیں۔

8۔ گریڈز سے زیادہ ریسرچ پر فوکس کریں۔

9۔ جس بھی فیلڈ میں داخلہ لیں، سکالرشپ حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک لازمی جائیں۔

10۔ ایم بی بی ایس اب پاکستان میں صرف ایک عام ڈگری بن کر رہ گئی ہے۔ اس کو اپنی ضد مت بنائیں۔ یقین مانیے it's not worth it now.اس پر اپنی انرجی، وقت اور دولت ہرگز ضائع مت کریں۔ ڈاکٹروں کے حالات حد سے زیادہ خراب ہیں۔ ڈاکٹر بن کر آپ ایک ایسے گھن چکر میں پھنس جائیں گے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔

اگر ڈاکٹر بن گئے تو بیرون ملک جانے کی لازمی کوشش کریں کیونکہ پاکستان میں آپ کی ڈگری اور ٹیلنٹ کی اب کوئی قدر نہیں۔ یہی سچائی ہے۔

مزیدخبریں