'جبری تبدیلی مذہب اور کم سنی میں شادی کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی جائے'

ایگزیگٹیو ڈائریکٹر ادارہ برائے سماجی انصاف پیٹر جیکب نے بیان کیا کہ کچھ حکومتوں نے جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے اقدامات کیے ہیں مگر واقعات کا تسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کے محرکات موجود ہیں۔

02:28 PM, 20 Sep, 2024

نیوز ڈیسک

قومی کمیشن برائے حقوق اطفال اور ادارہ برائے سماجی انصاف نے اعلیٰ سطح کا مشاورتی اجلاس بعنوان ' جبری تبدیلی مذہب اور کم سنی کی شادی' منعقد کیا جس میں سرکاری اور سول سوسائٹی کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت چیئر پرسن این سی آر سی عائشہ رضا فاروق نے کی، ان کے ساتھ پیٹر جیکب ایگزیگٹیو ڈائریکٹر سی ایس جے، اللہ دنِو خواجہ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق، زیب جعفر ایم این اے، سینیٹر صبا صادق، سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر اور ایڈووکیٹ لنڈسے ہائی نے اظہار خیال کیا۔

چیئرپرسن این سی آر سی عائشہ رضا فاروق نے اس موقع پر کہا کہ جبری نکاح اور تبدیلی مذہب ہمارے معاشرے کے اہم مسائل ہیں جن سے خصوصاً مذہبی اقلیت کی کم سن بچیاں زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ حالیہ قانونی ڈھانچے میں قانونی تحفظ تو ہے، مگر قوانین پر عمل درآمد کا فقدان انہیں غیر مؤثر بنا دیتا ہے جس کی مثال خلاف ورزیوں کا تسلسل ہے۔ سماجی دباؤ، قوانین کا غیر مؤثر عمل درآمد، اور حقوق سے ناکافی آگاہی ان ناانصافیوں میں معاون عوامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشاورت مذکورہ بالا مسائل، دشواریوں پر قابو پانے اور پاکستان بھر میں بچوں کے تحفظ کے اقدامات کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات مرتب کر کے ان کی روشنی میں قانونی تحفظ جس میں موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر متاثرین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات اور نئی قانون سازی تجویز کرنا ہے۔ اس ضمن میں شرکا کا تجربہ اور بصیرت ہماری آئندہ قانون سازی اور پالیسیوں کی اصلاح میں معاون ہوں گی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی شکایات قابل اعتبار ہیں۔

ایگزیگٹیو ڈائریکٹر ادارہ برائے سماجی انصاف پیٹر جیکب نے بیان کیا کہ کچھ حکومتوں نے جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے اقدامات کیے ہیں مگر واقعات کا تسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کے محرکات موجود ہیں۔ انہوں نے ادارہ برائے سماجی انصاف کے جمع کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے کی سنگینی بیان کی کہ 2021 سے 2023 تک پاکستان میں اقلیتی لڑکیوں اور خواتین کے اغوا اور جبری تبدیلی کے کم از کم 338 واقعات رپورٹ ہوئے جن سے ناصرف متاثرین کی زندگیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اقلیتی برادریوں میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کو مضبوط قانونی اقدامات کے ذریعے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔

سیکرٹری وزارت انسانی حقوق اللہ دنِو خواجہ نے کہا کہ بچیوں کی شادی کے لئے کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیے اور شادی کی قانونی عمر میں اضافے کی مخالفت کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں۔ لہٰذا 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی ہونی ہی نہیں چاہیے، چاہے وہ رضامند ہی کیوں نہ ہو۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی تحفظات کو یکساں طور پر نافذ کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ صرف اقلیتوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ تمام بچیوں، بچوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو تمام پاکستانی بچوں کو عدم تحفظ کا شکار بناتا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ لڑکیوں کو تبدیلی مذہب کے بعد اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کے لیے وقت اور جگہ دی جائے، خاص طور پر جہاں تبدیلی مذہب میں شادی شامل ہو۔

سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ تبدیلی مذہب کے طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تبدیلی مذہب کے لیے ایک واضح قانونی طریقہ کار ہونا چاہیے، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں وہ قانونی فورم یا عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنی تبدیلی کا جواز پیش کریں۔ مزید براں جبری نکاح کی روک تھام کے لیے نکاح خواں کی سطح پر احتساب ہونا چاہیے، کیونکہ ان مسائل سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر اصلاحات کا آغاز ہونا چاہیے۔

پیربھو ستیانی ممبر سندھ این سی آر سی نے پاکستان کی عالمی معاہدات میں ذمہ داریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو یونیورسل پیریڈک ریویو حالیہ سیشن میں ان کے مسائل کے حل کے لئے پانچ سفارشات موصول ہوئی ہیں جن میں سے ایک جبری تبدیلی مذہب کے متاثرین کے تحفظ اور انصاف تک ان کی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے باوجود جبری مذہب تبدیل کرنا، مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول بن چکا ہے۔

مشاورت کے دوران وفاقی سیکرٹری اللہ دنِو خواجہ، سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، ایم این اے زیب جعفر اور سینیٹر صبا صادق سمیت شرکا کو جبری نکاح اور تبدیلی مذہب کی روک تھام اور قانونی تحفظات کو یقینی بنانے کی کاوشوں پر تعریفی شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ادارہ برائے سماجی انصاف کی دستاویزی فلم 'ہم سایہ' جس میں پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں جبری نکاح اور مذہب تبدیلی سے متاثرہ نابالغ بچیوں اور ان کے خاندانوں کی مشکلات پر روشنی ڈالی گئی ہے، کی نمائش کی گئی۔ ہم سایہ فلم عالمی فلمی مقابلہ وینس انٹر کلچرل فلم فیسٹیول میں انسانی حقوق پر بہترین مختصر دستاویزی فلم کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔

مشاورتی اجلاس کے اختتام پر ماہرین اور شراکت داروں نے جبری نکاح اور تبدیلی مذہب سے نمٹنے کے لیے مناسب قانون سازی کا مشترکہ مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ شرکا نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک بااختیار قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔

مزیدخبریں