نیکٹا کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد اب بھی افغانستان میں رجسٹرڈ موبائل سموں کا استعمال کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے حال ہی میں لاکھوں موبائل سموں کی بندش کے علاوہ ایک ہزار ویب سائٹس اور تین ہزار سے زیادہ سوشل میڈیا صفحات بند کر دیے گئے تھے تاہم قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی کے مطابق، ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم تنظیموں کے لیے بچنا محال ہو گیا
نیکٹا نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے علاوہ دیگر اداروں کی کارکردگی پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ انٹرنیٹ رابطوں پر نظر رکھنا مشکل ہے تاہم اس حوالے سے قانون میں بھی سقم موجود ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سائبر کرائمز ایکٹ قومی سلامتی کے انفراسٹرکچر پر سائبر حملوں کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے جس کے باعث اس قانون میں حملوں سے دفاع کی شقیں بھی شامل کی جانی چاہئیں۔
نیکٹا نے انسداد دہشت گردی کے ہر محکمے میں سائبر سرویلنس یونٹ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔
یاد رہے کہ 25 فروری کو وفاقی حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ فورتھ شیڈول میں شامل افراد پر پاسپورٹ آفس کے دروازے بند کرنے کے علاوہ ان کے بنک اکائونٹس منجمد کر دیے تھے۔ یہ پابندیاں نیکٹا کی نشاندہی پر وزارت داخلہ کے احکامات پر عائد کی گئی تھیں۔
قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی نے چند روز قبل ہی کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اطلاع پر مزید 178 افراد کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کر دیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے چند تجاویز
متذکرہ بالا تمام تر اقدامات کے باوجود ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ ماہ پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل تمام افراد پولیس کو اپنی نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ رکھنے کے پابند ہیں۔