سفیان سے ہونے والی بات چیت سے مہمیز پا کر کئی ہم جنس پسندوں کا کھوج لگایا اور ان سے سوال کیے۔ زیادہ تر کے جواب سفیان سے ملتے جلتے تھے۔
اسلام آباد میں پوش علاقے کے رہائشی پنتالیس سالہ تنویر (فرضی نام) نے ہم جنس پسندوں کا ایک بڑا نیٹ ورک بنا رکھا ہے، جس کے باقاعدگی سے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں۔ بڑی مشکل سے بات چیت پر راضی ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ شادی شدہ ہیں۔ تین بچے ہیں۔ تنویر کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ بری صحبت اور بڑے لڑکوں سے دوستی سے ہم جنس پسندی کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہم جنس پرست ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔
اپنے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے تنویر کا کہنا تھا کہ بچپن میں ہی مجھے لڑکے اچھے لگتے تھے۔ تین ہم عمر دوست تھے۔ جن کو میں گھر لے کر آتا۔ انہیں چیزیں دیتا۔ رات کو دن ہونے کا شدت سے انتظار محض اس لئے ہوتا کہ صبح ہوتے ہی اپنے دوستوں کی کمپنی میسر ہوگی۔ تنویرکا کہنا تھا کہ ہم آج بھی ملتے ہیں۔
تنویر کے باریش دوست ٹیکسلا سے حافظ نور (فرضی نام) جو امامت بھی کراتے ہیں اور مدرس بھی ہیں نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ تنویر کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہم جنس پسندی اختیاری فعل نہیں ہے۔ حافظ نور نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بتایا کہ وہ ذاتی طور پر ہم جنس پسندی کے عمل کے لئے بے اختیار ہے۔ دینی ماحول میں رہتے ہوئے کئی بار کنارہ کشی کی کوشش کی ہے مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ گناہ کے سوال پر حافظ نور کا مؤقف تھا کہ گناہ کسی کو تکلیف پہنچانا ہے۔ یہ تومحبت کا معاملہ ہے۔ محبت گناہ نہیں ہے۔
تنویر نے کچھ دوستوں سے فون پر بات بھی کروائی اور ملاقات کا بھی کہا۔ اسلام آباد میں ہی امام بری کے علاقے میں سیف سے ملنے کا موقع ملا۔ سیف کا آبائی علاقہ منڈی بہاؤالدین ہے۔ سیف میں نسوانیت کا عنصر غالب ہے۔
سیف نے بڑی دلچسپ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے مجھے ایسا بنایا ہے۔ میری خواہش نہیں تھی کہ میں ایسا پیدا کیا جاؤں۔ اگر میری فطرت میں اللہ نے ہم جنس پسندی رکھ دی ہے تو پھر میرا عمل کسی کے لئے ناپسندیدہ تو ہو سکتا ہے مگر گناہ کے زمرے میں نہیں ہے۔ گناہ تو تب ہے کہ احساس گناہ ہو۔ جب تسکین ملتی ہے۔ خوشی ملتی ہے۔ میں مطمن ہوں تو پھر دوسرا کون ہوتا ہے۔ جو میری زندگی میں دخل دے۔
سیف کا کہنا تھا کہ گناہ کبیرہ تین سال کی بچی کو ریپ کرنا ہے۔ چھوٹے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا ہے۔ سیف نے بیوی کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر مباشرت کو بھی گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی گناہ یا غیرفطری امر کا اگر اتنا ہی فکر ہے تو ہم جنس پسند تو کئی جانور بھی ہیں۔ انہیں بھی تبلیغ کی جائے۔ جانوروں کو بھی روکا جائے۔ سیف نے کہا کہ ہم جیتے جاگتے انسان ہیں۔ ذرا مختلف ہیں تو اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم سے نفرت کی جائے۔ ہمیں اپنے سے الگ کردیا جائے۔ اچھوت سمجھا جائے۔ یہ غیر انسانی رویہ ہے۔ سمجھنے کی ضرورت ہمیں نہیں ہے، ہماری سوسائٹی کو ہے۔
سیف نے تو اپنی داستان سنا کر رلا دیا۔ حقیقت یہی ہے کہ بطور معاشرہ ہمیں ہم جنس پسندوں کے ساتھ کم از کم انسانی رشتہ تو بحال رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ماں کی محبت اور باپ کی شفقت سے محروم نہ کریں۔ بھائی اور بہن کے رشتوں میں پروئے رکھیں۔ آخر ہم انسان بن کر کیوں نہیں سوچتے؟ مذہبی تشریحات اور معاشرے کے جبر کا شکار ہو کر اپنے خون کے رشتوں کو نفرت کی بھینٹ کیوں چڑھا دیتے ہیں؟