سال 2019 کے آخری ایام سے لے کر اب تک پوری دنیا کرونا وائرس جیسے مہلک مرض کی لپیٹ میں ہے۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ اب تک اس مرض کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان بھی اس وقت کرونا وائرس کی زد میں ہے اور یہاں بھی یہ مرض ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس مرض سے بچاؤ کے لیے کوئی ویکسین ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکی۔ تمام سائنسدان اور شعبہ طب کے ماہرین اس مرض سے بچاؤ کا واحد حل سماجی دوری اور صفائی و ستھرائی کا مکمل خیال رکھنے کو بتاتے ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کرونا وائرس کو لے کر من حیث القوم ہم سب میں تربیت عمل اور اجتماعی و انفرادی سنجیدگی کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔
کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت وقت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ کاروباری مراکز بند کر دیے گئے، تعلیمی اداروں اور دیگر سرکاری اداروں میں تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا اور سفر کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ مگر بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اجتماعات آج بھی عام ہیں۔ کہیں سیاستدان راشن کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر کے میلا لگائے ہوئے ہیں تو کہیں پارٹی میٹنگ اور حکمت عملی طے کرنے کے نام پر لوگوں کا جم غفیر اکٹھا کیا گیا ہے۔ سفر کی پابندیوں کے باوجود سڑکوں پر آپ کو رش نظر آئے گا۔ کاروبارکو زندگی پر ترجیح دے کر چوری چھپے کاروبار کرنے میں بھی لوگ آپ کو مصروف عمل نظر آئیں گے۔
نجانے کیوں بحیثیت قوم ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ چند دن کی دوری چند دن کا فاصلہ ہمیشہ ہمیشہ کی دوری اور کبھی نہ ختم ہونے والے فاصلے سے ہزار گنا بہتر ہے۔ نجانے ہم کیوں یہ بات نہیں سمجھ پا رہے کہ چند دن مصافحہ نہ کرنے اور بغل گیر نہ ہونے سے آپس میں پیار کم نہیں ہوگا بلکہ اس میں ہماری اور ہمارے پیاروں کی ہی عافیت ہے۔ چند دن گھر کی چار دیواری میں گزارنے اور سماجی دوری اختیار کرنے میں ہمارے اپنے ہی فوائد پوشیدہ ہیں۔ گذشتہ روز مجھے ایک میرے بہت ہی قریبی دوست محترم فصاحت الحسن صاحب نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو میں ٹیگ کیا جس میں کرونا سے ہلاک شخص کی میت کو تابوت میں بند کرکے کندھوں پر اٹھانے کے بجائے گھسیٹ کر لے جایا جارہا تھا۔ صاحب مرگ کی ماں (غالباً) چیخ چیخ کر آہ و زاری کر رہی تھی کہ یہ انسان ہے اس کو گھسیٹ کر نہ لے جاؤ یہ انسان ہے اور اس کوانسانوں کی طرح اٹھا کر لے جاؤ۔ اس ماں کی آہ و زاری سے جو میرے دل پر گزری وہ کیفیت یہاں پر بیان کرنا مشکل ہے۔
گھروں سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنا ہمیں زندگی کی گاڑی سے اتار سکتا ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ اپنے گھروں میں محفوظ رہیں اور دوران گفتگو مناسب فاصلہ رکھیں۔ اس وقت کو مصیبت یا عذاب سمجھ کر جینے کی بجائے ہم مثبت انداز میں استعمال کرکے اپنی زندگی کے زاویے درست کرتے ہوئے خود میں ایک بہترین تبدیلی لا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر شوبز ستاروں کے لئے یہ بہترین وقت ہے کہ اپنی فین فالونگ بڑھانے کی فکر سے آزاد ہو کر چند دن گھر میں سکون سے گزاریں۔ اسی طرح اگر آپ مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں تو کتب بینی کا اس سے بہتر وقت آپ کو شاید دوبارہ میسر نہیں آسکے گا۔ اگر آپ کوئی بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں اور آپ نے اپنی فیملی کو کئی ہفتوں سے وقت نہیں دیا تو یہ آپ کے پاس ایک بہترین موقع ہے اپنا بھرپور وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کا۔ وہ لوگ جو میری طرح فلم بینی کا شوق رکھتے ہیں تو ان لوگوں سے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اپنے من پسند سیزنز کو نان سٹاپ دیکھنے کا ایسا سنہرا موقع آپ کے پاس شاید آپ کی زندگی میں دوبارہ کبھی نہ آئے۔
اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا اس وقت میں ہم سب کے پاس ایسا بہت کچھ کرنے کو موجود ہے جو ہم بہت عرصہ سے کرنا چاہتے ہیں مگر حالات کے ہاتھوں عاجز آکر ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ ہمیں سوچنے پر معلوم ہوگا کہ زندگی تو بلکل بھی نہیں رکی یہ تو رواں دواں ہے۔ ہاں البتہ اب یہ بالکل ویسی ہوسکتی ہے جیسی ہم نے کبھی اپنے خیالات یا سپنوں میں سوچی تھی کہ اگر مجھے زندگی نے موقع دیا تو میں اسے ویسے جیوں گا جیسے میں جینا چاہتا ہوں۔ اس وقت کو کارآمد بنانے، سماجی دوری کی بدولت اپنی زندگی کو اپنے سپنوں کے مطابق جینے اور وہ سب جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہ سب کرنے کا شاید آپ کے پاس یہ بالکل آخری موقع ہو۔
جہاں تک بات ہے فاصلوں اور سماجی دوری کی تو جان لیں کہ سماجی دوری اور ظاہری فاصلے اس وقت کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت ہیں۔ اور یہ فاصلے بھی کچھ معنی نہیں رکھتے اگر انسان کے دل ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ اس لیے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ صحت مند معاشرہ کی تکمیل میں ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کریں سماجی دوری اختیار کریں ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ اختیار کریں۔ کیونکہ ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ پیار خلوص اور درد بانٹا جا سکتا ہے۔ مصافحہ کرنے یا بغل گیر ہونے کے بغیر بھی ہم ایک دوسرے سے پیار کا اظہار کر سکتے ہیں۔
اگر اللہ کے دین کی بات کریں تو عبادات کا لطف تنہائی میں بھی لیا جاسکتا ہے اور تنہائی کی عبادت تو زہد و تقوی کی علامت ہے۔ انشا اللہ وہ وقت بہت جلد آئے گا جب آپ لوگ مساجد میں نماز ادا کرنے جا سکیں گے لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب آپ مناسب سب فاصلہ رکھتے ہوئے سماجی دوری کے ذریعے کرونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تو بس صحت مند زندگی کا راز آج کل بس اسی ایک فقرے میں ہے۔
زندگی رواں بس ذرا فاصلہ میرے مہربان
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔