جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹرم پر آ کر جسٹس عمر عطا بندیال کو کہا کہ مائی لارڈشپ بہت سخت ٹاسک دیتے ہیں اور بوڑھے انسان کو اتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ جسٹس منظور ملک نے سوال پوچھا کون بوڑھا ہے آپ یا جسٹس عمر عطا بندیال؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا میں اپنی بات کر رہا ہوں میرے بال سفید ہو گئے ہیں۔ جسٹس منظور ملک نے مسکرا کر کہا خدا کا خوف کریں آپ بوڑھے ہیں؟ بال سفید ہونے سے نہ تو انسان بوڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی فہم و فراست میں اضافہ۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ بینچ کے ایک معزز رکن کچھ کہنا چاہتے ہیں آپ پہلے ان کو سن لیں پھر آپ دلائل کا آغاز کرتے ہیں۔
اب جسٹس منیب اختر مائیک کے قریب ہوئے اور انہوں نے اپنی نشست کے بالکل سامنے کمرہ عدالت میں بیٹھی ہوئی مسز سرینا عیسیٰ کو مخاطب کر کے کہا مسز سرینا عیسیٰ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مسز سرینا عیسیٰ جو سر جھکائے کسی دستاویز کے مطالعے میں مصروف تھیں انہوں نے فوری سر اٹھا کر جسٹس منیب اختر کی طرف دیکھا۔ جسٹس منیب اختر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی کہ کل ایک افسوسناک صورتحال ہوئی اور وہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ مسز سرینا عیسیٰ کا بہت احترام کرتے ہیں اور بطور جج انہوں نے صرف سوالات کیے تھے۔ "میری نیت بالکل بھی آپ کو پریشان کرنا نہیں تھا لیکن کل جو ہوا اس پر آپ سے معذرت کرتا ہوں"۔ مسز سرینا عیسیٰ نے احترام سے کچھ بولے بغیر سر کو ہلکا سا جھکا کر معذرت قبول کر لی۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کو آگاہ کیا کہ انہوں نے بوڑھے ہونے کے باوجود محنت کر کے بینچ کے سوالات کا جواب تیار کیا ہے اور وہ تحریری جواب جمع کروا رہے ہیں۔
فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد مختلف صوبائی بار کونسلز کے وکیل سینیئر قانون دان حامد خان کو دلائل کی دعوت دی۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے روسٹرم پر آ کر بینچ سے استدعا کی کہ وہ اپنے تحریری دلائل جمع کروا رہے ہیں تاکہ معزز عدالت کا وقت بچایا جا سکے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو سننا چاہیں گے کیونکہ ہم مقدمات میں تفریق نہیں کر سکتے کہ بغیر دلائل کو سمجھے اور سوالات کو پوچھے سماعت مکمل کر دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اس موقع پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بینچ سے کہا کہ براہ مہربانی حامد خان کو تحریری دلائل جمع کروانے دیں، تاکہ جلدی فیصلہ ہو سکے۔ جسٹس قاضی کا جسٹس منظور ملک کا نام لیے بغیر کہنا تھا کہ اس بینچ کے ایک معزز رکن ریٹائر ہونے والے ہیں اور اس عدالت کے ایک دوسرے جج کی ریٹائرمنٹ بھی قریب آ رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اشارہ جسٹس مشیر عالم کی طرف تھا جو بینچ کے رکن تو نہیں لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ضرور ہیں اور سابق آمر جنرل ضیاالحق کی برسی والے روز 17 اگست کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بتا دوں کی جسٹس مشیر عالم کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تیسرے سینیئر ترین جج کے طور پر اگست میں سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بن جائیں گے اور ایسی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل کے دو اراکین کا اس کیس سے براہ راست اور بالواسطہ تعلق ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا اور جسٹس عمر عطا بندیال جنہوں نے فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے اس ریفرنس کا فیصلہ دے رکھا ہوگا جس سے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کا نیا سوال کھڑا ہوگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مڑ کر کمرہ عدالت کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ اگر کیس تاخیر کا شکار ہوگا تو سمیع ابراہیم جیسے اینکر ٹی وی پر بیٹھ کر کہیں گے کہ میں تاخیر کا شکار کر رہا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں حامد خان سے دلائل سنوں گا اور سوال بھی پوچھوں گا کیونکہ میں اتنا سمارٹ نہیں ہوں کہ تحریری دلائل سے بات سمجھ سکوں۔ اس موقع پر جسٹس منظور ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہدایت کی کہ قاضی صاحب آپ بیٹھ جائیں، کسی دوسرے کی بھی کبھی سن لیا کریں۔ جسٹس منظور ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ میں آپ کو پانی پینے کا بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ آپ روزہ سے ہیں۔
اس کے بعد حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے مسز سرینا عیسیٰ کو FBR بھیجنے کے حصے کو غیر قانونی قرار دیا۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے دلیل دی کہ FBR کے قانون کے تحت نوٹس کی صورت میں جوابدہ کو جواب کا مناسب وقت دیا جاتا ہے جو سپریم کورٹ کے حکمنامے میں نہیں دیا گیا۔ حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ نے ریفرنس خارج کر دیا تھا تو FBR کو تحقیقات کے لئے بھیجنا دراصل ریفرنس خارج کرنے کے فیصلے سے متصادم ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال پوچھا کہ کیا آپ کسی سابقہ فیصلہ یا قانونی نقطہ سے یہ کہہ رہے ہیں؟ حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ نہیں میں صرف دلیل کی بات کر رہا ہوں کہ اگر ایک ریفرنس ختم کر دیا گیا تو پھر اس کو FBR بھیج کر نئی زندگی دی گئی اور یہ تضاد تھا۔ جسٹس منیب اختر نے سوال پوچھا کہ آرڈر میں لکھا ہے کہ FBR کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع ہوگی اور سپریم جوڈیشل کونسل اگر سمجھے گی تو وہ سوموٹو ریفرنس میں بدل لے گی۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا یوں صدارتی ریفرنس سے تعلق توڑ دیا گیا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ ریفرنس چاہے صدارتی ہو یا سو موٹو لیکن دراصل یوں ریفرنس کو ہی ایک نئی زندگی دی گئی۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ ثابت ہوا کہ جائیدادیں مسز سرینا عیسیٰ کی ہیں اور جج کے بیوی بچے سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی جج کے بیوی بچے سپریم کورٹ کے کوڈ آف کنڈکٹ میں نہیں آتے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں ایک جج صاحب کے کچھ فیملی ممبرز کا کچھ غلط کام سامنے آیا تھا تو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ جج کے فیملی ممبر کو اپنے عوامی طرز عمل میں محتاط ہونا چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے خود ہی وضاحت بھی کر دی کہ ہاں لیکن وہ فیملی ممبر جج کے زیر کفالت تھے۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے جواب دیا لیکن اس کیس میں بیوی اور بچے خودمختار ہیں۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے حامد خان سے سوال پوچھا کہ آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے کہ کسی کو سنا نہیں گیا لیکن اس کے بارے میں حکم جاری کر دیا گیا؟ حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کسی کو فریق بنائے بغیر عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی۔ جسٹس منیب اختر نے سوال پوچھا کہ اگر کیس کے کسی فریق سے جڑے شخص کے بارے میں کوئی بات سامنے آ جائے تو کیا اس کے بارے میں بھی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184(3) عدالت کا دائرہ کار بہت وسیع کرتا ہے لیکن آرٹیکل 209 میں اس کا استعمال دیکھنا ہوگا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک ایسی باڈی ہے جس میں ہر وقت تنوع رہتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لیکن اس کے ممبر تو وہی رہتے ہیں جب تک ریٹائر نہ ہو جائی،ں یا مثال کے طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کو دیکھ لیں، میں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں رپورٹ کا جائزہ لینے سے معذرت کر لی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فوراً اپنی نشست سے کھڑے ہو کر بولے کہ براہ مہربانی میرے کیس کے سپریم جوڈیشل کونسل کے معاملے کو یہاں زیر بحث مت لائیں ورنہ اس کے نتائج ہوں گے اور مجھے پھر اس پر بات کرنا پڑے گی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مسکرا کر جواب دیا کہ تو پھر میں آپ کی طرف سے کب اپنے خلاف ایکشن کی امید رکھوں؟
حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات آتی رہتی ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل جس میں سمجھے انکوائری کا حکم دیتی ہے جو بعد ازاں ریفرنس میں بدل دی جاتی ہے اگر انکوائری میں کچھ سامنے آ جائے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ لیکن یہاں پر سپریم جوڈیشل کونسل نہیں سپریم کورٹ نے انکوائری کا حکم دیا جو اس کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔ حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ جج کے بیوی بچوں کے خلاف انکوائری کا حکم تو سپریم جوڈیشل کونسل بھی نہیں دے سکتی کیونکہ جج کے بیوی بچے کسی بھی طور سپریم جوڈیشل کونسل اور کوڈ آف کنڈکٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ نے ایک بہتر نقطہ اٹھایا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل بھی اہلخانہ کے بارے میں انکوائری کا حکم نہیں دے سکتی۔ حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو حکم بھی نہیں دے سکتی کہ وہ FBR کی رپورٹ کا جائزہ لے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل خود سے بھی رپورٹ کا جائزہ نہیں لے سکتی؟ حامد خان نے جواب دیا کہ ایک رپورٹ جو بنی ہی سپریم کورٹ کے حکم پر ہے سپریم جوڈیشل کونسل اس کا جائزہ لے گی تو دراصل وہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل جیسا ہی ہوگا۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ ریفرنس خارج تو کیا لیکن FBR معاملہ بھیج کر آپ نے جج کی تکلیف کو ختم نہیں کیا بلکہ جاری رہنے دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم ججز کو معاشرے میں ایک رول ماڈل کے طور پر زندگی گزارنی چاہیے اور اس کیس میں سے بچے اب علیحدہ ہو چکے ہیں کیونکہ مسز سرینا عیسیٰ نے تمام ذمہ داری اپنے پر لے لی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے اس کیس میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور مسز سرینا عیسیٰ نے دستاویزات اور ریکارڈ سے دکھایا ہے کہ انہوں نے برطانیہ اچھی خاصی رقم بھجوا رکھی ہے جس سے وہ یہ جائیدادیں خرید سکتی تھیں اور وہ ان پیسوں کے ذرائع آمدن بھی رکھتی تھیں۔ حامد خان نے اپنے دلائل کے اختتام میں بینچ کو یہ بھی کہا کہ وہ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس کو اپنے تحریری دلائل کا حصہ بنا رہے ہیں۔
فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ حامد خان آپ کو سن کر بہت خوشی ہوئی آپ نے خالص قانونی نقاط پر بہترین دلائل دیے۔ جسٹس منظور ملک نے جسٹس عمر عطا بندیال کی تعریف میں اپنے جملوں کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ میں پورے بینچ کی طرف سے آپ کے عمدہ دلائل کو سراہنا چاہتا ہوں اور سمجھتا ہوں اس کمرہ عدالت میں بیٹھے ہر شخص کو آپ سے سیکھنا چاہیے کہ دلائل کیسے دیتے ہیں۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روسٹرم پر آئے اور انہوں نے کل پوچھے جانے والے سوالات پر اپنا تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے تمام بارز اور PFUJ کا شکریہ ادا کیا جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر اپنے کل کے ایک جملے کی بھی وضاحت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل انہوں نے کہا کہ ان کی فیملی جتنی اذیت کسی نے نہیں برداشت کی اور وہ آئین اور عدالت کے مجاہد کی طرح آخری دم تک لڑیں گے اور جان بھی دینی پڑی تو دیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں اپنی تصحیح کرنا چاہوں گا۔ مجھ سے بڑے دو مجاہد اس بینچ کے رکن بھی ہیں جس میں جسٹس مقبول باقر شامل ہیں جن پر خود کش حملہ کر کے ان کے جسم کو کرچی کرچی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کو اغوا کر کے ان کی فیملی کو دباؤ میں لایا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دونوں معزز ججز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی قربانی بھی دراصل عدلیہ کی خودمختاری کی جنگ کا سنہرا باب ہے۔
اس کے بعد کراچی رجسٹری سے وڈیو لنک پر موجود رشید اے رضوی ایڈووکیٹ نے PFUJ اور دیگر کی طرف سے تحریری دلائل جمع کروانے کی استدعا کی جو عدالت نے قبول کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو وفاق کی طرف سے دلائل کی دعوت دی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے تحریری دلائل کے پیراز کے اہم پیراز کا بتایا اور سماعت کے کل تک ملتوی ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے تحریری جواب کی کاپیاں صحافیوں کے لئے رکھ دیں۔ سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے وہ کاپیاں اٹھا کر تقسیم کرنا چاہیں تو تقریباً تمما صحافی ایسے ہی جھپٹے جیسے نیاز کی دیگ پر حملہ ہوتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریری جواب کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے دلچسپ خبر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے کل جسٹس عمر عطا بندیال کے اہم انکشاف کی وضاحت تھی جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کہا تھا کہ ان دونوں کی جو گفتگو ہوئی وہ یہاں ذکر نہیں کرنا چاہیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے تحریری جواب میں کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے ان ریمارکس کا غلط مطلب لیا گیا اور وہ حلف پر یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کمرہ عدالت سے باہر کبھی جسٹس عمر عطا بندیال سے اپنے کیس پر بات نہیں کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید بتایا کہ وہ تو آج کل ججز کے ٹی روم میں بھی نہیں جاتے کہ کہیں ان کا کیس سننے والے ججز سے وہاں سامنا نہ ہو جائے جو وہ مناسب نہیں سمجھتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مزید لکھتے ہیں کہ میں نے تو چیف جسٹس کو تحریری درخواست دی تھی کہ میرے کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے رکن ججز کے ساتھ مجھے کسی بینچ کا رکن مت بنایا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک دلچسپ بات بھی بتائی کہ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ہمیشہ کی طرح مہربانی کرتے ہوئے اس سال بھی اپنے فارم ہاؤس سے شہد کی بوتل میرے لئے بھجوائی جو میں نے شکریہ کے ساتھ واپس بھیج دی تاکہ کوئی غلط تاثر مت جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کالونی میں اپنی نجی زندگی کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ اور ان کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ ججز یا ان کے اہلخانہ کی طرف سے دی جانے والی دعوتوں میں بھی شرکت سے معذرت کر رہے ہیں تاکہ کہیں ان کا سماعت کرنے والے ججز سے سامنا نہ ہو جائے۔
یہ تمام انکشافات جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کی نجی زندگی کا نقشہ کھینچتے ہیں کہ ایک سپریم کورٹ کا جج اور ان کی اہلیہ پچھلے دو سال سے کیسے ایک 17 ججز کی کالونی میں تمام ججز سے کٹ کر ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ اپنا وقت گزار پاتے ہیں نہ ہی مسز سرینا عیسیٰ اب سوشل رہی ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے چیف جسٹس جو آئینی طور پر پاکستان کا دوسرا سب سے طاقتور ترین عہدہ ہے، سماجی طور پر دنیا اور اپنے ارد گرد سے کٹ چکا ہے۔ ججز کالونی ان کے اور ان کی اہلیہ کے لئے ایک ایسی جیل جہاں وہ کسی سے ملتے جلتے نہیں اور نہ ہی کوئی ان تک رسائی رکھتا ہے۔ کسی بھی نارمل انسان کے لئے سماجی طور پر دنیا سے کٹ کر رہنا چند دن کے لئے بھی بہت اذیت ناک ثابت ہوتا ہے اور جو شخص اپنی اہلیہ سمیت دو سال سے یہ زندگی گزار رہا ہو وہ کتنی اذیت میں ہوگا۔ شاید یہی وہ اذیت ہے جس کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ بار بار سپریم کورٹ میں جذباتی بھی ہو جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں سپریم کورٹ کے ججز اپنے ساتھی جج کو انصاف دے کر کب ان کی اس اذیت کا خاتمہ کرتے ہیں۔