تفصیلات کے مطابق الہان عمر کی یہ ملاقات اس لیے بھی تنازع کا سبب بن رہی ہے کیونکہ عمران خان مسلسل اپنی اقتدار سے آئینی طریقے سے برطرفی کا ذمے دار امریکا کو قرار دے رہے ہیں۔
الہان عمر نے صدر عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا کھر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف سمیت متعدد پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں لیکن دراصل عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقات نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔
عمران خان کی کابینہ میں انسانی حقوق کی وزارت سنبھالنے والی ڈاکٹر شیریں مزاری نے اس ملاقات کے بارے میں ٹویٹ کیا، انہوں نے لکھا کہ امریکی رکن کانگریس الہان عمر نے بنی گالہ میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی، انہوں نے اسلاموفوبیا اور متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔ الہان نے عمران خان اور عالمی سطح پر اسلام فوبیا کے خلاف ان کے موقف اور کام کی تعریف کی، عمران خان نے مسائل پر ان کے جرات مندانہ اور اصولی موقف کو سراہا۔
https://twitter.com/ShireenMazari1/status/1516719698854825987
سوشل میڈیا پر عمران خان سے امریکی قانون ساز سے ملاقات کے بارے میں سوال کیا گیا اور انہیں یاد دہانی کرائی کہ اپوزیشن شخصیات کی امریکی حکام سے ملاقات کو کس طرح تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
ناصرف صحافیوں بلکہ ٹوئٹر پر عام عوام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین نے اس ملاقات کی وجہ دریافت کی، حکومتی عہدیدار بھی اس بحث میں کود پڑے اور اس معاملے پر عمران خان پر تنقید کرنے سے باز نہ آئے۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان سے سوال کیا کہ ان کی الہان عمر کے ساتھ ملاقات ایک سازش تھی یا مداخلت۔
انہوں نے سوال کیا کہ کونسی سازش رچی جا رہی ہے؟ اور عمران خان اس بیانیے کا حوالہ دیا کہ اپوزیشن کی امریکی حکام سے ملاقاتیں سازشی تھیں۔
وزیر داخلہ نے ملاقات کی تحقیقات کی وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان نے خود تفصیلات ظاہر نہیں کیں تو وہ (بطور وزیر) تحقیقات کریں گے کیونکہ قوم کو حقیقت کا علم ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ عمران نیازی اپنی روایت کے مطابق کچھ دنوں بعد ایک اور خط نکال لیں۔
امریکی ایوان نمائندگان میں مینیسوٹا کی نمائندگی کرنے والی صومالی نژاد امریکی قانون ساز الہان عمر کے لیے تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہے، اس بار ان کے دورے کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دورہ وہ ایسے موقع پر کررہی ہیں جب عمران خان نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے پر امریکی کی طرف سے سازش کا بیانیہ تیار کیا ہے، سیاست دانوں اور امریکی حکام کے درمیان نجی بات چیت پر سخت گیر موقف اختیار کرنے کے علاوہ انہوں نے عوامی جلسوں اور ریلیوں میں تقاریر کے دوران امریکا کی تابعداری نہ کرنے کا عہد کیا ہے اور اپنے مخالفین پر واشنگٹن کی لائن پر چلنے کا الزام لگایا ہے۔
امریکی حکام کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت میں یہ معلوم ہوا کہ الہان عمر ایک ’ذاتی سفر‘ پر تھیں اور اس کا امریکی انتظامیہ سے تعلق نہیں ہے، ایک عہدیدار نے وضاحت کی کہ اس سفر کا اہتمام ذاتی حیثیت میں کانگریس کی خاتون کے طور پر کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے کہا کہ عمران خان سے الہان عمر کی ملاقات ان کے دفتر نے براہ راست امریکا میں مقیم پاکستانی تاجر کے ذریعے طے کی تھی۔
ان کے اس سفر کے بارے میں کئی وضاحتیں سامنے آئی ہیں حالانکہ ماضی میں انہوں نے کبھی پاکستان میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، ان میں سے ایک قابل فہم بات یہ ہے کہ ان کے حلقے میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور انہوں نے خود بھی اسلاموفوبیا پر بڑے پیمانے پر کام کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین سے رابطہ قائم کرنا چاہ رہی ہوں کیونکہ انہوں نے اس مسئلے کو اجاگر کیا تھا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
دریں اثنا صدر عارف علوی نے الہان عمر سے بات کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعمیری روابط اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
الہان عمر نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری اور مضبوطی کو اجاگر کیا اور اسلامو فوبیا سے نمٹنے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔
انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی جنہوں نے انہیں بتایا کہ پاکستان باہمی احترام، اعتماد اور مساوات پر مبنی دو طرفہ تعاون کو مزید وسیع کرنا چاہتا ہے۔
الہان عمر سے ملاقات میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔