'امپورٹڈ حکومت نامنظور' کے نعرے پر بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں امپورٹڈ ہیں اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں؟ خان صاحب شاید یہ با ت بھول گئے ہیں کہ ان میں سے بہت سی سیاسی جماعتیں ان کی حکومت میں اتحادی تھیں۔ تب ان سیاسی جماعتوں کی کیا حیثیت تھی؟ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے تو وہ ٹھیک ہے ورنہ وہ امپورٹڈ ہے اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے؟ دراصل خان صاحب نے عوام کو بے وقوف بنانے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے اب وہ جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کہیں گے ان کے حامی اسے مِن و عَن مانیں گے۔ لیکن اب لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ خان صاحب صرف باتیں کرتے ہیں اور عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جس کا اندازہ عوام کو پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں ہو چکا ہے۔
اس پراپیگنڈا مہم کا دوسرا نعرہ 'غلامی یا حقیقی آزادی' ہے۔ یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کس سے؟ کیا یہ فوج سے آزادی چاہتے ہیں جس نے تحریک عدم اعتماد کے دوران غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا؟ یا یہ عدلیہ سے آزادی چاہتے ہیں جس نے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی فعل کے خلاف فیصلہ دیا؟ یا یہ عوام سے آزادی چاہتے ہیں جو ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار میں عوام کے لئے کیا کیا؟ آخر عمران خان کس سے آزادی چاہتے ہیں؟ کیا عمران خان ایک بادشاہ کے طور پر اس ملک پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور وہ اس ایک کو حقیقی آزادی کا نام دے رہا ہے کہ جہاں وہ اپنی انا کی خاطر اس ملک کو تباہ کرنے کے لئے آزاد ہو؟ یقیناً ملک کے بائیس کروڑ عوام ایسے فاشسٹ نظریے کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
اس پراپیگنڈا مہم کا تیسرا نعرہ 'آؤ پاکستان کو بچانے کے لئے نکلو' بہت خطرناک نعرہ ہے کیونکہ یہ لوگوں کو بدامنی اور انتشار کی طرف اکساتا ہے۔ عمران خان بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو سڑکو ں پر لانے سے وہ فوج اور عدلیہ پر دباؤ ڈال سکیں گے۔ اور نئی حکومت کے لئے بہت مشکلات پیدا کر سکیں گے۔ جس طرح سے مختلف شہروں میں مسلسل جلسے ہو رہے ہیں بہت ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی اسلام آباد میں دھرنا بھی دے۔ جس کی بدولت پہلے سے کمزور معیشت پی ٹی آئی کی اشتعال انگیز سیاست سے مزید کمزور ہو جائے گی اور جس کا خمیازہ بھی عام آدمی کو بھگتنا پڑے گا۔ یہ ایک خطرناک اقدام ہے اور ایک بار معاملات قابو سے باہرہو گئے تو خود عمران خان اس اقدام کا شکار ہو جائیں گے۔ اس طرح ملک میں سیاسی بدامنی پیدا ہوگی جو کہ ملک کے لئے مزید مسائل کا باعث بنے گی۔
اگر عمران خان عملی سیاست میں اپنے آپ کو فعال رکھنا چاہتے ہیں تو عمران خان کو تعمیری سیاست کرنی چاہیے اور سیاسی کھیل کھیلنے کے لئے جمہوری طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ کوئی غیر آئینی امداد اور راستہ نہ ڈھونڈیں کیونکہ سپورٹس مین شپ سچ کا تقاضا کرتی ہے نہ کہ پراپیگنڈہ اور کسی تھرڈ امپائر کا۔ کیونکہ بقول مصطفیٰ زیدی "اپنے دست لہو رنگ پہ نظر ڈالیں اور اپنے دعویٰ معصومیت پہ غور کریں"۔