لیکن اس سب کے عوض جہانگیر ترین کو پہلے سپریم کورٹ سے نااہلی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر چینی کی قیمتوں کا معاملہ اٹھا اور شوگر کمیشن رپورٹ نے چینی کی قیمتوں اضافے کا سب سے بڑا بینفشری یعنی فائدہ حاصل کرنے والا گروپ جہانگیر ترین کا قرار دیا۔ جس کے بعد سے وزیر اعظم اور جہانگیر ترین کے درمیان بظاہر تعلق ختم ہوگیا۔
جہانگر ترین اپنا علاج کرانے کی خاطر برطانیہ چلے گئے۔ پاکستانی میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا پر ایسی قیاس آرئیاں جاری رہیں کہ جہانگیر ترین اور نواز شریف میں رابطہ کاروں کے توسط سے رابطے ہو رہے ہیں۔ اور جہانگیر ترین نواز شریف کی سپورٹ کے ساتھ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کو ڈس مس کرنے کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں اور اس حوالے سے مرکزی کردار ادا کرنے میں چوہدریوں بھی شامل ہیں۔
تاہم ااب جہنگیر ترین نے کامران خان کو انٹرویو دیتے ہوئے ان تمام دعووں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ نواز شریف سے کبھی نہیں ملے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس دعوے کی بھی نفی کی ہے کہ وہ پنجاب حکومت کو گرانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔