پاکستان میں موجود سعودی عرب کے سفارت خانے نے کچھ میڈیا چینلز کی جانب سے نشر کی گئی خبر کی تردید کر دی، جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالامپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا تھا اور اس حوالے سے دھمکی بھی دی تھی۔
اس حوالے سے پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال کی جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات دیرینہ اور اسٹریٹیجک ہیں جو اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز ترک اخبار صباح کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کی صورت میں سٹیٹ بینک میں رکھی ہوئی رقم کو واپس نکال لیا جائے گا۔
ترک صدر کے حوالے سے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی حکومت نے دھمکی دی تھی کہ 40 لاکھ پاکستانی ورکرز کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ان کی جگہ بنگلہ دیش کے شہریوں کو ویزے دیے جائیں گے۔
اردوان نے ترک میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو معاشی دشواریوں کے باعث سعودی عرب کی خواہشات پر عمل کرنا پڑا۔
دوسری جانب دفتر خارجہ کی جانب سے ترک صدر کے بیان پر براہ راست کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مسلم امہ کی ممکنہ تقسیم روکنے کے لیے کئی اہم مسلم ممالک کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے، اس لیے پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
خیال رہے کہ پاکستان ان پہلے ممالک میں شامل تھا جن سے رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے سمٹ کے انعقاد کا ارادہ شیئر کیا تھا۔
بعدازاں ملائیشیا کے نائب وزیر خارجہ مرزوکی بن حاجی یحیی نے 29 نومبر کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جسے وزیراعظم نے قبول کر لیا تھا۔ تاہم گذشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا منسوخ کرنے کی اطلاعات گردش میں تھیں اور 14 دسمبر کو سعودی عرب کے دورے کے بعد انہوں نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق وزیراعظم، سعودی عرب کی جانب سے دباؤ ڈالنے کی وجہ سے اجلاس میں شرکت سے دستبردار ہوئے جس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے ابتدائی دنوں میں معاشی بحران سے نکلنے کے لیے مدد کی تھی۔