رپورٹ کے مندرجات ہمارے اس اہم ترین قومی مسئلے کی جانب حکام بالا کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ ہم نے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انھیں در بدر ہونے پر مجبورکر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال بیس لاکھ نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے نوکریاں تلاش کرتے ہیں۔
اس کے باوجود ملک میں اکیس سے چوبیس سال کی عمرکے افراد میں بے روزگاری کی شرح نو فی صد ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ روزگارکی مقامی منڈی میں اتنی بڑی افرادی قوت کے لیے روزگارکے مواقعے نہ ہونے کے برابر ہے اگر ملکی معیشت سالانہ سات فی صدکی شرح سے ترقی کرے تو نوجوانوں کو روزگارکے بہتر مواقعے میسر آسکتے ہیں لیکن چند برسوں میں پاکستان میں اقتصادی شرح نمو اتنی نہیں رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟جواب سادہ اورآسان ہے کہ سب کچھ ہماری ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
اس وقت ایک، ایک آسامی کے لیے ہزاروں درخواستیں آجاتی ہیں۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ پی ایچ ڈی، ایم فل، ایم ایس سی، ایم اے اور ایم کام بھی ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے روزگارکی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صنعتی، تجارتی اور کاروباری شعبے کی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی کو روکنے کے لیے زراعت پر مبنی صنعتیں لگانے کی غرض سے ترجیحی بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کریں۔
اس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو مقامی طور پر روزگار مل سکے گا اور چند بڑے شہروں پر آبادی کا بے تحاشہ دباؤکم ہونے سے انفرا اسٹرکچرکو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کی بیرون ملک منتقلی روکنے کے لیے ہمیں ایک قومی ایکشن پلان کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔