زرداری صاحب کے یہ جملے انتہائی معنی خیز ہیں۔ انہوں نے تو نام نہیں لیا لیکن یقیناً عوام جانتے ہیں کہ اشارہ کس طرف تھا۔ وہ پیغام واضح کر رہے ہیں کہ لانے والے اب عمران حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ پیپلز پارٹی یا اپوزیشن سے مدد کے متمنی بھی ہیں لیکن اپوزیشن ان پر اعتبار کے لئے تیار نہیں اور فارمولہ بھی تبھی نکال کر دے گی جب عمران خان کی حکومت کو چلتا کر دیا جائے گا۔
حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں، اس میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے حوالے سے بدترین حالات کا شکار ہیں۔ یوں کہا جائے کہ یہ سال ان کے سیاسی کریئر کا بدترین سال بن کر سامنے آیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے ناصرف سال کی ابتدا میں ہی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی بلکہ سال کا اختتام بھی تقریباً اسی جگہ پر ہو رہا ہے۔ سال کی ابتدا میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم متحد تھی، جلسے پر جلسہ ہو رہا تھا، اور عمران خان کو روزانہ کی بنیاد پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پھر ضمنی انتخابات کا موسم شروع ہوا۔ شدید ترین دھاندلی کے باوجود ڈسکہ کا انتخاب بمشکل پی ٹی آئی رات کے کسی پہر جیتی تو الیکشن کمیشن نے نتیجہ ہی کالعدم کر دیا اور پھر اسے یہاں بھی بدترین شکست ہوئی۔ اپنے گڑھ نوشہرہ سے اسے مسلم لیگ ن کے امیدوار کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ کراچی میں فیصل واؤڈا کی جیتی ہوئی نشست پر یہ چھٹے نمبر پر آئی۔ اور سب سے بڑا دھچکا تو سینیٹ میں لگا کہ جب اسلام آباد کی سینیٹ کی سیٹ پر عمران خان حکومت اپنا امیدوار قومی اسمبلی سے منتخب نہ کروا سکی اور پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی ناصرف اپوزیشن کے بلکہ بڑی تعداد میں تحریکِ انصاف کے اراکین کے ووٹ بھی لے کر سینیٹر منتخب ہو گئے۔ یہ درحقیقت تو ویسے ہی حکومت کے لئے تحریکِ عدم اعتماد لائے بغیر ایوان کے عدم اعتماد کا اظہار تھا کہ حکومت ایوان میں اکثریت کھو چکی ہے لیکن غیر رسمی طور پر۔
عمران خان نے اس ہزیمت سے بچنے کا سامان کچھ یوں کیا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کھڑے ہو گئے۔ وہ بھی کچھ دوستوں کی مہربانی تھی وگرنہ کئی اپوزیشن اراکین ریکارڈ پر ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو اس دن ہی حکومت ختم کر سکتے تھے لیکن کہیں سے آواز تھی کہ پہلے پنجاب، پھر وفاق۔ اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اس کے لئے تیار نہ تھی۔ کیونکہ پنجاب میں بھی اس کے بغیر تحریکِ عدم اعتماد ناممکن ہے اور وفاق میں بھی عدم اعتماد کی کنجی اسی کے قائد کے پاس لندن میں محفوظ ہے۔
اس کے بعد حکومت کو قدرے آسانی میسر آئی۔ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی اور عوامی سطح پر کوئی بڑا سیاسی محاذ اس کے سامنے کھڑا نہ تھا۔ لیکن اس خلا کو مہنگائی نے پورا کیا کہ جب لمبی لمبی قطاروں میں لگے عوام ایک طرف تو آٹے، چینی کی قلت کو رو رہے تھے تو دوسری جانب جنہیں یہ اشیا میسر بھی تھیں وہ بھی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں پر نالاں تھے۔
اپریل میں تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ کو جیل میں ڈال کر اک ایسا پنگا لیا گیا جس سے اس وقت بھی حکومت بمشکل ہی نبرد آزما ہو پائی تھی۔ اور پھر یہ جن اکتوبر میں پھر بوتل سے باہر آ گیا۔ اور ایک موقع پر تو لگتا تھا کہ حکومت کے ساتھ کچھ خوفناک ہی کر جائے گا۔ تبھی جنرل باجوہ نے مداخلت کر کے مذاکرات کو کامیاب کروایا اور یہ خطرہ ٹل گیا۔ لیکن اس سے قبل ہی اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ بھی الجھاؤ شروع ہو گیا جب تمام تر حربے استعمال کرنے کے بعد عمران خان کو یہ واضح کر دیا گیا کہ مزید تاخیر کی گنجائش نہیں اور سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل فیض حمید کو عہدے سے ہٹانا ناگزیر ہو ہی چکا ہے تو عمران خان نے وہ حربہ استعمال کیا جو محلے کی کرکٹ میں بچے کرتے ہیں کہ میر بیٹ ہے، میں گھر لے کر جا رہا ہوں۔ انہوں نے اس تبادلے کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ لڑائی جیسی بھی رہی ہو، نتیجہ وہی آیا جس کا سب کو پتہ تھا۔ تبادلہ ہو گیا۔ اور عمران خان تنہا رہ گئے۔
اور پھر سال کے اختتام پر انہیں جمعیت علمائے اسلام نے وہ دھچکا پہنچایا ہے کہ جس سے سنبھلنا شاید اب ناممکن ہوگا۔ دو چیزیں اہم ترین ہیں۔ عمران خان نے جتنا پچھلے دس سالوں میں مولانا فضل الرحمان کا مذاق اڑایا، جس طرح سے جلسوں میں ان کے خلاف نعرے لگوائے، کسی اور مخالف کے بارے میں ایسا نہیں کیا۔ اسی مخالف سے ایسی شکست کھانا، اور وہ بھی اپنے گڑھ میں۔۔۔ ایسی پٹخنی کے بعد عموماً پہلوان دوبارہ اٹھا نہیں کرتے۔
اب ایسے میں اگر زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ اسے نکالو، پھر ہم سے بات کرو تو اس کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ سیاسی طور پر یہ حکومت اب کسی جوگی رہی نہیں۔ اس کے حمایتی اس کے پیچھے سے ہٹ جائیں تو اس کو نکالنا کوئی لمبا چوڑا کھیل ہے نہیں۔ اگر واقعتاً وہ یہی کہہ رہے ہیں، تو بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ عمران خان غیر مقبولیت کی جن گہرائیوں میں اس وقت غوطہ زن ہیں، اس سے نکالنے کے لئے انہیں حکومت سے نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔