دشمن کی ریشہ دوانیوں، یعنی مافیا، پی ڈی ایم کی چتر چالاکیوں اور عوام میں شعور کی کمی کو پی ٹی آئی کا عام ورکر ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ اور آپسی لڑائیوں اور امیدواروں کے غلط چناؤ کو حکومتی بزر جمہروں نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ مثلاً ایک خاتون صحافی نے امیدواروں کے فیصلوں کے حوالے سے ایک طویل فہرست لکھی جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کو حالیہ عرصے میں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان میں سے ایک لاہور کے این اے 133 میں جمشید اقبال چیمہ کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی نہ جمع کرانا بھی شامل ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ خانیوال میں پی ٹی آئی نے اپنے کارکن کو ٹکٹ نہ دیا جس کی وجہ سے وہ شکست سے دوچار ہوئی۔ یہ بتانا بھول گئیں کہ مخالف پارٹی نے 2018 میں کامیابی حاصل کی تو عثمان بزدار صاحب ان صاحب کو توڑ کر پی ٹی آئی میں لے کر گئے تھے اور اب دوسرے امیدوار کو ٹکٹ ن لیگ سے ملا تو وہ بھی جیت گیا، یعنی مسئلہ امیدوار نہیں، پارٹی میں ہے۔
ان تمام لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ دراصل حکومت کی غیر مقبولیت کو کوئی اور نام دے کر بلدیاتی انتخابات میں ہوئی شکست کا ذمہ دار اسے قرار دے دیا جائے۔ حقیقت لیکن اتنی سادہ نہیں۔
حکومت کی غیر مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے چند ماہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ بھرپور محنت کر رہی ہے اور اپنی جماعت کو بڑی حد تک اس نے منظم کیا ہے۔ لوگوں کو عوامی نیشنل پارٹی سے بہتر کارکردگی کی توقع بھی تھی۔ اور یہ مانا جانا چاہیے کہ اس نے گذشتہ دو عام انتخابات کے مقابلے میں بہت بہتر کارکردگی دکھائی بھی ہے۔
لیکن دوسری جانب اصل معرکہ تو جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مارا ہے کہ جنہوں نے ناصرف لاکھوں کی تعداد میں ووٹ لے کر خود کو اس وقت صوبے کی سب سے طاقتور جماعت ثابت کیا ہے بلکہ کل چار ڈویژنز میں سے تین کے میئر بھی لے اڑی ہے۔ چوتھا میئر عوامی نیشنل پارٹی کو ملا ہے۔ تحریکِ انصاف کا میئر کی حد تک مکمل صفایا دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جمعیت نے پشاور میں میئر کی سیٹ حاصل کر لی ہے جو کہ تحریکِ انصاف کا گڑھ مانا جا سکتا ہے۔ اس شہر سے 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے تمام قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتی تھیں جب کہ 13 میں سے 12 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی یہ کامیاب رہی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کا یہ حال تھا کہ مولانا خود اپنی دونوں نشستوں پر شکست کھا گئے تھے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ صوبے کی 5 ڈویژنز جہاں انتخابات ہوئے، مولانا کی جماعت نے خود کو سب سے مقبول جماعت ثابت کیا ہے۔
یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ یہ ووٹ امیدواروں کے غلط چناؤ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی غیر مقبولیت کی وجہ سے پی ٹی آئی ہاری ہے کیونکہ گذشتہ تین برس میں ملک میں سب سے زیادہ جم کر اگر کسی جماعت نے اپوزیشن کی ہے تو وہ مولانا ہی کی جماعت ہے۔ مولانا نے کسی بھی موقع پر عمران خان حکومت کے ساتھ برائے نام بھی تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف بھی کیا تو محض اس بات پر کہ عمران خان کی حمایت کیوں جاری رکھی جب کہ اب جیتنے کے بعد بھی انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اداروں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ بے جا حمایت نہ کریں، ہم ان سے بہتر ملک کو چلا سکتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف حقیقی اپوزیشن کا کردار جس نے ادا کیا، اسے عمران خان کی غیر مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کا بھی موقع مل گیا۔
رہی یہ بات کہ امیدوار غلط تھے تو یہ امیدوار کے مسائل کس جماعت کو نہیں ہوتے؟ کیا جمعیت کے پاس ایک حلقے میں ایک سے زیادہ امیدوار نہ ہوں گے؟ کیا عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ہر حلقے میں محض ایک ہی ٹکٹ کا متمنی تھا؟ جب یہ مسائل سب جماعتوں کے ساتھ ہیں تو پھر یہ دلیل کہ امیدوار کو ٹکٹ غلط دے دیا گیا، بالکل بے اثر اور بہانے بازی معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو جماعت زیادہ مقبول ہوتی ہے اس کو امیدوار سے فرق نہیں پڑتا۔ 2018 کے انتخابات میں عامر لیاقت کے کراچی یا عثمان بزدار کے پنجاب سے منتخب ہونے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
سلیم صافی صاحب نے ایک اور اہم نکتہ بھی اٹھایا ہے۔ شاہزیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو میڈیا کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو 2018 کے نتائج بھی ایسے نہ ہوتے جیسے آئے ہیں۔ مثلاً ایک کہانی شروع کر دی گئی کہ نجی سکولوں سے والدین اپنے بچوں کو اٹھا کر سرکاری سکولوں میں داخلہ دلوا رہے ہیں کیونکہ سرکاری سکولوں کے حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ میں چیلنج کرتا رہ گیا کہ مجھے کوئی ایک بچہ تو ایسا دکھا دیں جس نے ایسا کیا ہو، لیکن میڈیا نے بس جو تحریکِ انصاف نے کہہ دیا اس کو پھیلانا شروع کر دیا۔
حکومت کے اپنے ایم این اے نور عالم خان نے بھی اس پروگرام میں یہ امیدواروں کے چناؤ والی بات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ کی کارکردگی ٹھیک نہ ہو تو ایسے ہی لوگوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ الیکشن نور عالم کی وجہ سے ہار گئے تو وہ کسی اور کی وجہ سے۔ پارٹی کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ اور وہی ووٹ اسے ملتا ہے۔ لوگوں کو بار بار بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ پارٹی کو اپنی سیاست پر خود غور کرنا چاہیے۔