ڈاکٹر تابش حاظر؛ ایک مسیحا جو اب ہم میں نہیں رہا!

11:11 AM, 21 Dec, 2022

محمد شہزاد
آج دل بہت رنجیدہ ہے۔ میرا عظیم دوست، انسانیت کا دوست، میرا محسن، غریب، بے بس، لاچار اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا محسن اور ہمدرد مایہ ناز ماہر اطفال ڈاکٹر تابش حاظر اس دنیا میں نہیں رہا۔ دوسروں کا ٹھیکہ تو میں ہرگز نہیں لیتا، نہ گوگل پر موجود گھسی پٹی معلومات دہرانے کا قائل ہوں، صرف اپنے تجربے کی روشنی میں بتلاتا ہوں کہ تابش کون تھا۔

تابش سے تعارف 1996 میں ہوا۔ میرا بیٹا اسامہ شہزاد ایک برس کا تھا۔ شدید بیمار۔ کچھ پتہ نہیں کیا بیماری ہے۔ پمز (PIMS) اسلام آباد لے گیا اسے۔ وہاں تابش اور ڈاکٹر جے کرشن نے اسے موت کے منہ سے آزاد کرا لیا۔ کیا کچھ ہو گا جو نہ کیا ہو ان دونوں نے۔ میں ان دونوں کا غلام ہو گیا۔ قریب تین ہفتے وہیں گزرے۔ اس دوران نجانے کتنے بچے اسامہ والی حالت میں آئے اور اتنی ہی توجہ، لگن اور جذبے سے تابش اور جے انہیں نئی زندگی دیتے رہے۔ اس سے بڑھ کر جہاد اور کیا ہو گا۔ اس کی گواہی تو کائنات کا پیدا کرنے والا دے رہا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ تابش نے تو ایک نہیں ہزار نہیں بلکہ کئی ہزاروں جانیں بچائیں اپنے 40 سالہ کیریئر میں۔

تابش سرکاری ہسپتال کا ڈاکٹر۔ سرکاری ملازمت میں زیادہ تر لوگ کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں۔ تابش تو اپنی تنخواہ پمز میں آئے ان بچوں پر خرچ کر دیتا تھا جن کے والدین دوا دارو کی سکت نہ رکھتے تھے۔ وہ Friends of Children Hospital کا بانی تھا۔ اپنے دوستوں کو خوب شرمندہ کر کے قائم کیا اس نے۔

'تم سالے روز ہر شام ولایتی شراب پر ہزاروں لٹا دیتے ہو۔ ادھر ہسپتالوں میں بچے دواؤں کی قلت کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ نکالو اپنی جیبوں سے ہزار دو ہزار ہر مہینے۔ میں تمہیں شراب پینے سے منع نہیں کر رہا۔ لیکن کچھ دوا دارو انسانوں کا بھی کرو۔'
تابش دیانت دار انسان۔ سب نے جی کھول کر اس فنڈ میں حصہ ڈالا۔ اس پیسے سے تابش اور اس کے دیگر ساتھی پمز میں آئے ان بے بس لوگوں کی مدد کرتے۔

؎ دوستوں کے درمیاں
وجہ دوستی ہے تُو!

ناصر کاظمی کا یہ شعر میری تابش کے ساتھ دوستی پر صادق بیٹھتا ہے۔ میں موسیقی کا رسیا اور سیکھنے کی وجہ سے آدھا مراثی۔ تابش کو عشق کلاسیکل موسیقی سے اور شوق گانے کا۔ شیریں (مزاری) کو بھی گانے سے پیار۔ ایک دن مجھے کہنے لگا، یار شہزاد کوئی استاد کا بندوبست کرو میرے لئے۔ میں نے کہا کہ یہ کام بہت وقت مانگتا ہے۔ تمہارے پاس کہاں۔ بولا نہیں میں نکال لوں گا۔ میں نے مرحوم غنی جعفری سے تعارف کرا دیا۔ غنی صاحب ایک درویش۔ راجہ بازار سے ای سیون سائیکل پر آتے اور تابش اور شیریں کو موسیقی سکھاتے۔ بہت مدد کی دونوں نے غنی صاحب کی۔

دل بہت رنجیدہ ہوا جب اپنے دوست سرمد صہبائی (تابش کے ماموں) سے پتہ چلا کہ تابش کینسر سے نبرد آزما ہے۔ اسی دوران اس سے دو ملاقاتیں ہوئیں لیکن اس نے ذکر تک نہ کیا۔ میں نے فون کر کے گلہ کیا تو بولا یار کچھ نہیں ہوا، چلتا رہتا ہے۔ کیا دلیر انسان تھا۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا کہ موت بھی ایک لمحے کے لیے فکرمند ہو جائے کہ کس کے پاس آ گئی!

تابش کی شخصیت ایسی مسحور کن کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے۔ کسی ہالی ووڈ فلم کا ہیرو لگتا تھا۔ اور کیا رعب و دبدبہ۔ شاید ہی کبھی چھٹی کی ہو۔ ایک دن شدید بخار میں ہسپتال موجود۔ وقت کا پابند ایسا کہ طبلے کے سم کی طرح آئے۔ مجال ہے کہ آدھ سیکنڈ لیٹ ہو۔ سخت گیر ایڈمنسٹریٹر۔ ادھر وہ وارڈ میں وارد ہوتا، ادھر سب کی گِھگی بندھ جاتی۔ بلا درجے کا خوش لباس۔ اعلیٰ پرفیوم۔ بالوں میں جیل jell۔ کون نرس ہو گی جو اس پر فریفتہ نہ ہو۔ میں تو اسامہ کی وجہ سے وارڈ میں ہی رہتا تھا۔ سب کے تبصرے (جب وہ چلا جاتا تھا وارڈ سے) سنتا تھا۔ سب نرسوں کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ تابش کی بیوی وہ ہوتی اور جنہوں نے شیریں مزاری کو دیکھا ہوا تھا وہ اس بات پر حیراں ہوتیں کہ کیا اللہ کی شان، واقعی جوڑے آسماں پر بنتے ہیں! لیکن تابش کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا۔ اس کی توجہ صرف کام پر اور وہ بے عزتی کرتا نا اہلوں کی کہ ان کی ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگ جاتیں۔ حال ہی میں کسی کام سے پمز جانا ہوا۔ دیکھ کر یقین نہ آیا کہ یہ وہی ہسپتال ہے جسے تابش نے اپنی زندگی دی۔ شاید ریلوے کا حال اس سے بہتر ہو۔

اپنے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب بہت بڑے فین تھے تابش کے۔ ان کے سپیشل چائلڈ بیٹے کا علاج تابش ہی کرتے تھے۔ اور چودھری صاحب خود ہسپتال لے کر آتے اسے۔ ایسے نہیں کہ ڈاکٹر کو گھر بلوا لیا۔

میں اکثر گلہ کرتا ہوں کہ آج کل جب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ سمارٹ فون، واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر، ای میل سب کچھ ہے تو لوگوں کے لئے جواب دینا اتنا مشکل کیوں ہو گیا ہے۔ ایک وقت تھا ہم خط لکھا کرتے تھے۔ دس دن میں خط دوست کے پاس پہنچتا۔ وہ اگر فوراً بھی جواب دے دے تو مزید دس دن لگ جاتے تھے۔ اکثر خط محکمہ ڈاک کی لیاقت کے سبب بیچ رستے ہی میں غائب ہو جاتا۔ اب تو سیکنڈ سے بھی کم وقفے میں کسی کے پیغام کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ لیکن معاشرے کی بے حسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اجنبی چھوڑ اپنا دوست تک جواب دینا شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ لیکن تابش واقعی عظیم تھا۔ کینسر اپنے عروج پر تھا اور میں نے کیا حماقت کی کہ فیس بک پر میسج لکھ مارا کہ تمہارے والد توفیق رفعت صاحب کی کتابیں میری لائبریری سے غائب ہیں۔ مجھے بھیج دو۔ میں فوٹو کاپی کرا کے واپس کر دوں گا۔ تابش نے مجھے اپنے ڈرائیور کے ذریعے انتہائی خوبصورت پیکنگ میں جسے بہت ہی حسین بیگ میں رکھا گیا تھا، ساری کی ساری کتب بھجوا دیں۔ مشکور ہونے کے علاوہ میں شرمندہ تھا کہ کیوں زحمت دی۔ یہ تو میں سرمد سے بھی لے سکتا تھا۔ لیکن عظیم لوگ جواب دیتے ہیں فوراً اور اچھا جواب دیتے ہیں۔ ہمارے تو دوست ایسے ہیں کہ ان سے بہتر انسان دشمن پالے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ہماری معمولی کامیابیاں کیسے ان کا جگر چھلنی کرتی ہیں۔ لہٰذا ہم نے بھی اب وطیرہ بنا لیا ہے کہ اپنی بے کار کامیابیوں کا فیس بک پر خوب ڈھنڈورا پیٹیں جس کا مقصد اپنی تشہیر نہیں بلکہ اپنے دوستوں کو حسد کی آگ میں جلانا ہوتا ہے۔ وہ جلتے ہیں اور اپنا دل بہت ہی خوش ہوتا ہے۔

تابش ایسا شوہر جو بیوی کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ عمران خان کو شدید ناپسند کرتا تھا۔ کہتا تھا عمران کے پیٹ میں داڑھی ہے۔ میں شیریں کو سمجھاتا ہوں لیکن وہ اس کا کام لہٰذا وہی جانے۔ آج تابش کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اس کے جملے کی بڑھت ہم کیے دیتے ہیں۔ پاٹے خان کے پیٹ میں داڑھی تو ہے ہی لیکن سر میں بھیجے کی جگہ بھس بھرا ہے۔ پیٹ کی داڑھی کے سبب جو درد شکم اٹھتا ہے وہ کسی کروٹ چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ اسی لئے بیچارہ یو ٹرن پہ یوٹرن لینے پر مجبور ہے۔

تابش ہزاروں غریبوں اور بے مددگاروں کو اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔ سب ہی اس کا غم لئے اس کے حق میں دعا کر رہے ہوں گے۔ میں بھی کر رہا ہوں مگر اسے دیکھ بھی سکتا ہوں۔ بالکل ساتھ بیٹھا ہے خالق کے۔ مسکرا رہا ہے۔ بہت خوش ہے۔ درست مقام پر ہے۔ میرے لئے فکر کی بات یہ ہے کہ کیا میں بھی کچھ ایسا کر پاؤں گا مرنے سے پہلے کہ تابش کے پیروں میں کوئی خالی جگہ اپنی جگہ بنا سکوں؟
مزیدخبریں