اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فیصلہ معطل کرنے کی بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد عمران خان کا عام انتخابات 2024 میں حصہ لینے کا راستہ بند ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ فوجداری کیس کا فیصلہ معطل کرنے درخواست پر 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا جس کے بعد بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے انتخابات میں حصہ لینے کے امکانات ختم ہو گئے۔
فیصلے کے مطابق توشہ خانہ فیصلہ معطل کرنے کی سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں سزا معطلی کے آرڈر میں نظر ثانی یا ترمیم کی گنجائش نہیں۔ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے سزا معطل ہوسکتی ہے فیصلہ نہیں۔ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ سزا معطلی سے فیصلہ معطل نہیں ہوتا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سزا معطلی کی درخواست میں فیصلہ معطل کرنے کی استدعا نہیں کی تھی۔
قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ سزا یا فیصلہ معطلی سے نااہلی ختم نہیں ہوتی بلکہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار پانے پر ہی نااہلی ختم ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا۔ جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
فیصلے سناتے ہوئے کہا گیا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔
رواں سال 8 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات چھپانے کا ریفرنس قابل سماعت قرار دیا۔ 12 جولائی کو عمران خان نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
4 اگست سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ٹرائل روکنے کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں کیس ٹرانسفر کی درخواست پر فیصلے تک ٹرائل کورٹ فیصلہ نہیں کر سکتی۔
4 اگست اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے۔
4 اگست اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کو 5 اگست کو طلب کرلیا اور ان کے وکلا کو ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قابل سماعت ہونے سے متعلق واپس بھیجی گئی درخواست پر اپنے دلائل دیں۔
5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔