عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد جسمانی طور پر معذور ہیں، جن میں سے 80 فیصد کا تعلق ترقی پذیرممالک سے ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی دس فیصد آبادی کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے۔
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تیس کروڑ آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد جسمانی، ذہنی معذوری میں مبتلا دیکھنے اور بولنے اور سنے سے معذور ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ ہمارے ملک میں معذور بچوں کی 80 فیصد تعداد مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔
چوہدری یاسر شکرگڑہ کے رہائشی پیدائشی معذور پیدا ہوئے۔ وہ بونے پن (dwarfism) میں مبتلا ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ (گریجویٹ) اور برسرروزگار ہیں۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصے لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم جیسے افراد کو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ جب انہوں نے ہوش سنبھالی تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ باقی لوگوں سے مختلف ہیں۔ جیسے جیسے زندگی کی گاڑی آگے بڑھی اور انہوں نے سکول جانا شروع کیا تو زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اسُ وقت ان کے پورے علاقوں میں معذور افراد کیلئے کوئی الگ سے تعلیمی ادارہ موجود نہ تھا۔ اس لئے عام بچوں کے ساتھ سکول میں تعلیم کا آغاز کیا۔ مگر انہوں نے اس دوران بہت ساری ذہنی اور جسمانی تکالیف برداشت کیں۔ کبھی سکول کے دوسرے ساتھی تنگ کرتے تو کبھی انہیں استاد اپنے غصے اور جبر کا نشانہ بناتے۔ وقت گزرتا گیا اور جب وہ میٹرک میں امتحانات دینے کیلئے امتحانی مرکز پہنچے تین سے چار سو طلبہ کا ایک جھنڈ ان کے گرد جمع ہو کر آوازیں کسنے لگا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ دن ان کی زندگی کے تکلیف ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ مگر انہوں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اور ایجوکیشن میں گریجویشن مکمل کیا۔
انہوں نے بتایا کہ گریجویشن کے بعد نوکری تلاش کرنا بھی ایسا ہی تھا جیسے تپتے صحرا میں ٹھنڈے پانی کا چشمہ۔ تین سال پہلے نارروال کے ایک سرکاری ہسپتال میں کلرک کی اسامی نکلی۔ جب وہ اپنے کاغذات لے کر نوکری کی درخواست جمع کروانے گئے تو وہاں کے کلرک نے رشوت کے طور پر تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا مگر چونکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تو اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا ان کیلئے ممکن ہی نہ تھا اس لئے وہ شکتہ دل کے ساتھ واپس لوٹ آئے۔ اس کے بعد وہ نارروال کے ڈپٹی کمشنر کے پاس اپنی درخواست لے کر گئے مگر وہاں سے بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2017 میں وہ اپنی درخواست لے کر پنجاب اسمبلی گئے۔ بیوروکریٹ بشیر احمد گوندل کے دفتر میں جا کر اپنی درخواست اور کاغذات ان کے ٹیبل پر رکھے مگر انہوں نے وہ فائل پڑھے بغیر ہی اٹھا کر ان کے منہ پر دے ماری۔ انہیں ایسے ہتک آمیز رویے کی توقع نہ تھی مگر انہوں نے اپنے کاغذات سمیٹے اور انتہائی مایوسی کے عالم میں وہاں سے نکل آئے۔ اس واقعے کے بعد بہت عرصہ تک وہ شدید ذہنی تکلیف میں مبتلا رہے۔
اس واقعے کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور پارلیمنٹ میں معذور افراد کی کمیٹی کے ممبران سے رابطہ کیا تاہم وہاں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا مطالبہ فقط اتنا تھا کہ کمیٹی ایک دفعہ مجھے اور مجھ جیسے معذور افراد کو سن کر اس کے مطابق چند اقدامات کرے مگر وہاں بھی کسی شخص نے میری کوئی بات نہ سنی۔
اس سلسلے میں انہوں نے سپیشل افراد کی کمیٹی کے ممبر آفتاب جہانگیر، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، کمال الدین، اور محمد ہاشم سے رابطہ کیا۔ جس میں سے صرف آفتاب جہانگیر نے جواب دیا اور انہوں نے کہا کہ وہ اب معذور افراد کیلئے تشکیل دی گئی کمیٹی کا حصہ نہیں، جبکہ وہ ابھی بھی وہ اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔
آخر میں معذور افراد کیلئے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو انہیں امید تھی کہ وہ معذور افراد کیلئے کام کریں گے، مگر پی ٹی آئی کے جھوٹے بلند بانگ دعوؤں کی طرح میری امیدیں بھی خاک میں ملا دی گئیں۔ اپنے جیسے سپیشل افراد کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زندگی ایک خوبصورت نعمت ہے، اسے ضائع مت کریں اور اپنی معذوری کو اپنی کمزوری بنا کر زندگی مت گزاریں۔
یاسر جیسے نوجوان ہمارا فخر ہیں جو اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بناتے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی 15 فیصد آبادی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہے۔ مگر اب بھی ہمارے ملک میں معذوروں کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ ان کیلئے ملازمتوں میں تین فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ مگر وہاں بھی ان افراد کو پہلے رشوت جیسے مراحل سے گزر کر انہیں نوکری دی جاتی ہے۔ ان کیلئے نوکری کے قواعد الگ مختص کئے جائیں۔ ان کے ورکنگ آورز کو مخصوص کیا جائے کیونکہ بیشتر معذور افراد زیادہ دیر بیٹھ بھی کام کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
معذور افراد معاشرے کا حسن ہیں اور یہ حسن ہمارے تعاون اور احساس کے بغیر ناممکن ہے۔
اس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ معذور افراد سے اظہار و ہمدردی، محبت اور شفقت کے جذبے کو پروان چڑھانے کیلئے مثبت اقدامات فی الفور بروئے کار لائے جائیں جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ بہت ساری تنظیموں اور معاشرے کو ان کی بحالی کے لیے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں۔