ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے آفتاب سلطان کی ملاقات ہوئی تھی جس میں انکی جانب سے استعفیٰ پیش کیا گیا تھا۔ سے اپنے ایک بیان میں آفتاب سلطان کا کہنا ہے کہ مجھے کچھ چیزوں کا کہاگیا جس پر تحفظات تھے جس کی بناء پر استعفیٰ کچھ روز قبل دیا تھا۔
وزیراعظم آفس (پی ایم او) کی جانب سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی ہے کہ آفتاب سلطان نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کردیا ہے۔
وزیر اعظم نے آفتاب سلطان کی خدمات کو سراہا اور ان کی ایمانداری اور نیک نیتی کو سراہا۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے آفتاب سلطان کا استعفیٰ ان کے مطالبے پر ہچکچاتے ہوئے قبول کرلیا۔
ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین نیب نے ’کسی کے کہنے‘ پر سیاستدانوں کی جبری گرفتاریاں کرنے سے انکار کیا تھا۔ "آفتاب سلطان گزشتہ چار ماہ کے دوران حکومت اور بعض اداروں کے دباؤ میں تھے اور انہیں چند لوگوں کے خلاف مقدمات درج کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آفتاب سلطان نے بتایا ہے کہ میرا استعفیٰ قبول کرلیا گیا ہے اور ہمارا اختتام اچھے موڑ پر ہوا ہے کیونکہ موجودہ ماحول میں کام نہیں کرسکتا تھا۔ ہمیشہ میرٹ اور قانون کے مطابق کام کیا اور چاہتاتھا کوئی ایسا کام نہ ہو جس سے ادارے پر سوال اٹھیں۔
ذرائع کے مطابق نیب ترمیمی ایکٹ کے تحت نیب کے اختیارات کم ہو گئے تھے اور چیئرمین نیب کو اختیارات کی کمی سے تحفظات تھے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت 2022 میں ختم ہونے کے بعد آفتاب سلطان کو نیب کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ان کا نام پیپلز پارٹی نے تجویز کیا تھا۔ آفتاب سلطان کو 21 جولائی 2022 کو تین سال کی مدت کے لیے نیب کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
آفتاب سلطان کا تعلق پولیس سروس پاکستان سے ہے اور وہ گریڈ 22 کے آفیسر ہیں۔آفتاب سلطان ڈی جی آئی بی سمیت دیگر اہم عہدوں پر بھی تعینات رہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے دوران آفتاب سلطان آئی جی پنجاب تعینات تھے۔ ان کے والد اور ساس دو بار قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔