دور جدید میں بینکوں کی سہولت کے باوجود بونیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نقد رقم اور قیمتی اشیا سنت سنگھ کے پاس امانت کے طور پر رکھواتے ہیں اور سنت سنگھ کسی نفع نقصان کے بغیر لوگوں کی امانتیں بروقت واپس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع بونیر کے باسی سال 2022 میں بھی بینکوں میں پیسے رکھنے کے بجائے سنت سنگھ کو ترجیح دیتے ہیں۔
سنت سنگھ کے والد کندن لال 1950 میں پیر بابا میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ اس وقت سے اس خاندان پر لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ قائم ہے۔ والد کے انتقال کے بعد سنت سنگھ نے کاروبار سمیت ' منی بینک' کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے۔ اب سنت سنگھ کی عمر 54 سال ہے اور انہوں نے 22 سال کی عمر میں یہ کاروبار سنبھالا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک احسن طریقے سے کاروبار اور منی بینک چلا رہے ہیں۔
بونیر میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 12 سو افراد اور 7 سو خاندان آباد ہیں جن کی اکثریت اپنا کاروبار چلاتی ہے۔ بونیر میں سکھ کمیونٹی کے پانچ گردوارے اور پانچ شمشان گھاٹ ہیں جہاں پر وہ بلا خوف و خطر اپنی عبادات اور رسومات ادا کرتے ہیں۔ سکھ برادری کی پچاس فیصد آبادی بونیر کے اولین اور روحانی گاؤں پیر بابا میں رہائش پذیر ہے جبکہ باقی آبادی دیوانہ بابا، غورغوشتو، جنگئی اور چنگلئی میں زندگی بسر کر رہی ہے۔
سنت سنگھ کے مطابق وہ 122 سال سے بونیر میں آباد ہیں۔ ان کے آبا و اجداد یہاں کاروبار کی غرض سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت پیر بابا بازار کاروبار کے لحاظ سے سوات کے مینگورہ شہر کے مقابلے کا بازار تھا اور تب سے لے کر اب تک سکھ برادری اور مسلمان بھائی آپس میں بہتر تعلقات کی فضا میں رہ رہے ہیں اور ان کا آپس میں اچھا میل جول ہے۔
سنت سنگھ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بونیر میں سکھ کمیونٹی سینکڑوں سال سے آباد ہے اور یہ لوگ میرے بھائیوں اور خاندان کے افراد کی طرح ہیں۔ اس مٹی اور قوم کی خدمت مرتے دم تک کروں گا۔ یہاں میرا کاروبار چھوٹا ہے لیکن لوگوں کا اعتماد بہت بڑا ہے۔ سنت سنگھ نے بتایا کہ میرے والد صاحب کندن لال نے ' منی بینک' کی بنیاد رکھی تھی لیکن پھر ان کے انتقال کے بعد میں نے اپنی ذمہ داری بروقت قبول کی اور یہ سلسلہ جاری رکھا۔ ہمارے پاس لوگ 5 روپے سے لے کر لاکھوں روپے تک رکھواتے ہیں۔ اس دور جدید میں مختلف مقامات پر بہت سارے بینک موجود ہیں لیکن پھر بھی لوگ ہمارے پاس پیسے رکھوانے کے خوائش مند ہوتے ہیں۔
سنت سنگھ کے مطابق بونیر کے زیادہ تر افراد سعودی عرب اور ملائشیا میں مقیم ہیں۔ وہ سب ہمارے ہاتھ پیسے بھیجتے ہیں اور پھر ان کے خاندان والے ضرورت کے وقت ان میں سے کچھ پیسے ہم سے وصول کر لیتے ہیں۔ سنت سنگھ نے بتایا کہ اب میری عمر 54 سال ہو چکی ہے اور میرا شمار اپنی برادری کے مشیران میں ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے کاروبار اور منی بینک کے ساتھ ساتھ گردوارے کی خدمت بھی کرتا ہوں۔
' منی بینک کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ اس وقت بونیر میں بینکنگ کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔'
پیر بابا میں دس سال سے کاروبار کرنے والے سلیم بونیری نے بتایا کہ یہاں زیادہ تر کاروبار سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ چلا رہے ہیں۔ مختلف علاقوں سے لوگ یہاں آ کر کپڑے، مٹھائیاں اور روایتی چیزیں لے کر جاتے ہیں۔
بینکوں میں پیسے رکھنا بھی غلط بات نہیں لیکن کبھی سال کے آخر میں بینکنگ سسٹم بہت خراب ہوتا ہے تو یہی وجہ ہے میں خود بھی اپنے پیسے سنت سنگھ کے پاس رکھواتا ہوں اور ان کے پاس زیادہ تر امانتیں اور پیسے مسلمان برادری والے لوگ ہی رکھواتے ہیں۔ ڈگر سے تعلق رکھنے والے شاہ سعود نے بتایا کہ بونیر میں رہنے والے سکھ کمیونٹی کے تمام تر افراد مقامی ہیں۔ ان کی پیدائش ہی یہاں ہوئی ہے۔
' منی بینک میں ہم سب پیسے رکھوا رہے ہیں، اس کی خاصیت یہ ہے کہ لوگ ان کے پاس اس لیے امانت رکھواتے ہیں کہ جس وقت بھی چاہیں واپس لے سکتے ہیں۔ ان کی طرف سے انکار نہیں ہوتا۔ بس یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان پر مکمل اعتماد ہے اور ان کے ساتھ باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارہ بھی بہت زیادہ ہے۔'
بونیر تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے سید واحد خان نے بتایا کہ سنت سنگھ اور ان کے والدین عرصہ دراز سے پیر بابا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بازار میں سکھ کمیونٹی کا سب مسلم برادری کے ساتھ بھائی چارہ قائم دائم ہے۔
سنت سنگھ کے پاس ہم خود بھی پیسے رکھوا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اب تک کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور وہ یہ کام عبادت کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ صرف پیسے نہیں بلکہ قیمتی چیزیں بھی اپنے پاس سنبھال کر رکھتے ہیں۔