ناول ایک تجریدی رنگ میں لکھا گیا ہے جس میں کردار اپنے آپ سے خود کلامی کرتے ہیں اور اسی میں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ پاکستانی انگریزی ادب میں اس قسم کا یہ اولین تجربہ ہے جس میں ایک کتا بھی خود کلامی کرتا ہے۔ ناول ایک شدید جذباتی مدوجزر سے گزرتا ہے جس میں قاری کہیں تو کرداروں کیلئے ہمدردی محسوس کرتا ہے اور کہیں ان کے المیے کو اپنا محسوس کر کے آنکھوں کے گوشے نم پاتا ہے۔ ناول کی سب سے خاص بات اس کا مزاح ہے۔ حنیف نے ایسے سنجیدہ مراحل پر بھی بے ساختہ مزاح کی ایسی پھلجڑیاں چھوڑی ہیں جو صرف وہی کر سکتے ہیں۔ کتے مٹ کی زبانی تو کئی ایسے ڈائیلاگ ہیں کہ بندہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ قہقہوں کے اس دور میں صرف ایک لفظ یا ایک سطر سے ناول ایکدم پھر سنجیدہ بلکہ المیہ ہو جاتا ہے۔ امریکی استبداد کے خلاف استعارے میں ایسی شاندار تنقید کی گئی ہے جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔ نہ صرف امریکی مظالم پر تنقید ہے بلکہ ان کی انگریزی زبان کو ایک نیا رنگ دینا بھی تختہ مشق سے اتارا گیا ہے۔
یہ ناول انسانی حسیات کو جکڑ لیتا ہے۔ انسانوں کے اندرونی خلفشار، خواہشات کا جوار بھاٹا، ان کی نا آسودگی، ایک ہی وقت میں ظالم اور ہمدرد ہو جانا، یہ اس ناول کے خاص تھیم ہیں۔ انسانی المیوں کو تشبیہات، خاص طور پر سرخ پرندوں اور سرخ دھول سے تعلق دینا قاری کو اس حزن کا شکار بنا دیتا ہے جس کی کمی سے دنیا میں بے حسی بڑھی ہے۔ خدا سے سوال جواب کا ایک بہت جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا حصہ ہے جو قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یہ ناول بنیادی طور پر ایک سسکی ہے، صحرا میں ابھری ایک ایسی سسکی جس کی بازگشت انسانیت کو ہلا کر رکھ دے۔ یہ ایک آہ ہے، ایک کراہ ہے جس میں انسانی ظلم اور مظلومیت کی کل داستان رقم ہے۔
ناول کی واحد قابل تنقید شے اس کے آغاز میں بوجھل خود کلامی ہے۔ قاری شروع میں اپنے آپ کو اس خود کلامی کی وجہ سے کچھ کنفیوژ سا محسوس کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ کیفیت رفع ہو جاتی ہے۔
ریڈ برڈز صرف حنیف کا نہیں پورے پاکستان کا فخر ہے۔