اور اس بڑے سے خربوز پر ایک چھوٹا سا کٹ لگا کر، گاہک کو اس کے لال ہونے کی تسلی دے، اس تربوز کو خریدنے پر مائل کر ہی لیتے ہیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے آج اس خاتون کو اتنی سردی میں تربوز یا تربوز کو کٹ لگا کر دکھانے والا پھل فروش کہاں سے یاد آگیا ۔ جی مجھے وہ کل ایک فلم دیکھتے ہوئے یاد آیا۔ منظر کچھ اسطرح تھا کہ گاہک، اوہ، میرا مطلب ہے لڑکے والے آ کر بیٹھے تھے۔ اور لڑکی کے گھر والے بالکل اس پھل فروش کی طرح سے اس کی خوبیاں گنوا رہے تھے۔
جیسے وہ آواز لگاتا ہے نا، ٹھنڈا، میٹھا شرطیہ لال تربوز لے لو۔ بالکل ویسے ہی لڑکی کے گھر والوں میں سے کوئی بتا رہا تھا کہ ایم ۔اے پاس، گھر داری سے واقف، کھانا تو اتنا مزے کا بناتی ہے نا۔ اور ہاں! جب سب لوگ درزیوں کے ہاں بھاگے جاتے ہیں یہ بالکل ریڈی میڈ جیسے کپڑے سی لیتی ہے۔
اب آیا اگلا مرحلہ یعنی گاہک کو آخری مرحلے میں خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے، ایک چھوٹا سا حصہ دکھانے کا، کہ دیکھو کھا کر تو نہیں دیکھ سکتے مگر یہ پکی بات ہے کہ لال ہے، نہیں یقین تو کٹ لگا کر دکھاؤں۔ بالکل ویسے ان سب بتائی گئ یخوبیوں کے نمونے پیش کیے جانے لگے، یہ سموسے کھائیں نا بچی نے خود بنائے ہیں، ارے وہ فراک کی تصویر دکھاؤں نا جو اپنی دوست کی بھانجی کو سی کر دیا تھا۔
صورتحال تو تقریباً وہی ہوتی ہے، لڑکے والے کسی بلاوجہ کے مغرور، بدتمیز گاہک کی مانند، ایسے سوال کر رہے ہوتے ہیں جیسےتربوز اپنی ضرورت کو نہیں، اس بیچارے پھل فروش کے سر احسان کرنے کو خرید رہے ہوں، اور لڑکی والے اس بیچارے پھل فروش کی مانند کے شام ہو گئی اور ابھی تک ایک دانہ نہیں بکا، بلاوجہ کا رباب دکھا دو مگر خرید ضرور لینا۔
کبھی ایک لمحے کو رک کر سوچا ہے کہ یہ کٹ اس تربوز پر نہیں، آپ کی بیٹی کی عزت نفس پر لگ رہا ہے، بے قدری اورجان چھرانے کا رویہ ایک جنس نہیں، ایک جیتے جاگتے انسان کے بارے میں ہے، اور جو بھی اسطرح ابھی سے ناقدری دکھا رہے ہیں، آپ کی بیٹی کو اپنے معیار کی چھاننی پر چھان رہے ہیں کل کو اس کو کس، کس چھاننی سے نہ چھانیں گے اور سب سے بڑھ کر وہ آپ کی بیٹی ہے، شام کو نہ بک جانے والے تربوز نہیں جس سے کسی بھی قیمت پر جان چھڑانا لازمی ہے ۔
ہمارے معاشرے میں پہلے دن سے بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے کی گھٹیا ذہنیت، اس قدر پرانی اور اندر تک اتر چکی ہے کہ تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد بھی ملک کی اکثریت آج بھی بیٹوں کے معاملے وہی رویہ رکھتی ہے جو تب رکھا جاتا تھا جب ہندوستان، پاکستان نہیں برصغیر تھا۔
حتی کہ کچھ لوگوں کا بچیوں کو پڑھانے کا واحد مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ آجکل ان پڑھ لڑکیوں کو کون پوچھتا ہے، ایک اضافی خوبی لڑکی کے پاس ایم۔ اے کی ڈگری۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ماسٹر کرنے والی بچیوں کی اکثریت کو اس اس ڈگری کی بنیاد پر زندگی بنانے کا موقع دیے بنا، وہ ڈگری بس کاغذ کا ایک ٹکرا کیوں ہو کر رہ جاتی ہے، وہ جیسے آجکل خربوزوں پر ایک چھوٹا سا سرخ رنگ کا اسٹیکر چسپاں ہوتا ہے۔ فلاں فارم یا ڈھمکاں فارم کا، تو ایسے ہی ڈگری بس ایک سٹیکر جو بتائے کہ اچھی یونیورسٹی سے پڑھی ہے، ویسے کبھی نوکری یا اپنی پہچان بنانے کا نام نہیں لے گی۔ صرف آپ کے گھر کی شان بڑھائے گی کہ اچھے فارم سے خریدا خربوزہ ہے، مہنگا اور عمدہ ہو گا۔
کبھی ایک لمحے کو بیٹھ کر سوچا ہے ایسے مصنوعی مسکراہٹوں سے لڑکے والوں کے سامنے بچھتے ہوئے، آپ اپنی بچی کی خود کتنی بے قدری کر رہے ہوتے ہیں، ایک محسوس کرتے، سوچتے وجود پر باقاعدہ کسی کی ملکیت قائم کر کے اسے ایک انسان سے ایک چیزمیں بدل رہے ہوتے ہیں، خریدار تو چاہے گا کہ بلاوجہ کے نقص نکال قیمت کم کروائے۔
کبھی سوچا ہے کہ آپ خود ایک رشتے کو یعنی اپنی بیٹی کو ناقدری کے سودے میں بدلنے میں کتنے قصوروار ہوتے ہیں۔
آپ کو کیوں لگتا ہے کہ اگر اس گاہک کی مانند، اگر یہ لڑکے والے آپ کی بیٹی کو لیے بنا چلے گئے تو کوئی آسمان گر پڑے گا، اگر یہ سودا طے نا ہوا تو وہ کوئی پھل یا سبزی نہیں۔ جو آج نا بکی تو کل کو مرجھانے لگے گی بلکہ آج اگر اس رشتے کی بجائے، اسے بیوی یا بہو بننے کی بجائے، اسے اس کی پہچان بنانے کا موقع دے دیں گے تو کل کو آج سے بھی زیادہ زندہ، پروقار اور خوبصورت انسان ہو گی، یقین کیجیے، وہ ضرور ہو گی۔