ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو خواتین نے اپنے تعارف سے ویڈیو شروع کی اور ساتھ کھڑے ہوٹل مینجر سے اس کی انگریزی سے متعلق سوالات شروع کر دیے۔ ٹوئٹر پر موجود صارفین کی بڑی تعداد نے اس رویے پر کنولی مالکین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور 1 گھنٹے میں 12 ہزار سے زائد ٹوئٹس کے ساتھ بائیکاٹ کنولی ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔
ایمان حاضر مزاری نے ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس گورے کمپلیکس کو جانا ہوگا۔ جس پر گلوکار شہزاد رائے نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کے لئے وہ ریاست کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں انہوں نے مزید لکھا کہ اس ملک میں کوئی کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو مگر وہ css کا امتحان پاس نہیں کر سکتا کیونکہ وہ انگریزی میں مضمون نہیں لکھ سکتا۔
https://twitter.com/ShehzadRoy/status/1352165041219497985
وسیم عباسی نے اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ملازم کا مذاق اڑانے والی خواتین کا خود مذاق بن گیا۔
https://twitter.com/Wabbasi007/status/1352145324836605952?s=08
معروف محقق اور سیاسی و سماجی رہنما ڈاکٹر عمار علی جان نے لکھا کہ کنولی کیفے کے مالکان کی ویڈیو سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ملازمین کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔ ملازمین کے ساتھ یہ سلوک صرف یہیں نہیں بلکہ گھروں، فیکٹریوں، سکولوں ، ہوٹلوں اور دیگر تمام جگہ ہوتا ہے۔
لیبر قوانین ملازمین کو نوکری کے تحفظ ، معقول تنخواہ اور یونین سازی کا حق دیتے ہیں۔ ملازمین کے حقوق کے تحفظ کیے بغیر ان کا احترام ممکن نہیں ہے۔
https://twitter.com/ammaralijan/status/1352170762615066624
ٹوئٹر صارف فاطمہ نے لکھا کہ انہوں نے آج ٹوئٹر پر سب سے بری چیز اس ویڈیو کی صورت دیکھی ہے جس میں ہوٹل کے سٹاف کو انگریزی نہ بولنے پر بے عزت کیا جارہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس امیر طبقے کا انگریزی کمپلیکس کب ختم ہوگا۔ لوگوں کو انگریزی زبان کی بنیاد پر جج کرنا بند کیا جائے۔
https://twitter.com/Kan__Fatima/status/1352024552088461315?s=08