سانحہ مری کیس میں جمعے کو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی کبھی میٹنگ ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کو اس حوالے سے معلومات نہیں، پوچھ کر ہی عدالت کو آگاہ کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی ذمہ داری تھی کہ تمام انتظامات مکمل ہوتے۔ این ڈی ایم اے کے قانون پر عمل نہیں ہو رہا۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اس معاملے میں وزیر اطلاعات بھی ملوث ہیں کیونکہ انہوں نے ٹویٹ کیا تھا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا قانون کے مطابق تو سارا کام متعلقہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ بات طے ہو گئی ہے کہ پالیسی میکنگ باڈی کی کبھی میٹنگ نہیں ہوئی اور اس لئے تمام ذمہ داری پنجاب کے سربراہ کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قانون دیکھا اور معلوم ہوا کہ قانون پر عملدرآمد ہی نہیں ہوا۔ وزیراعلیٰ کی زیرسرپرستی کمیشن بنے ہیں لیکن انہوں نے کام نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ این ڈی ایم اے مکمل طور پر فعال ہے، عدالت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی میٹنگ کا حکم دیا جو جلد ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق متاثرین کو معاوضہ بھی دینا ہوتا ہے کیا وہ دیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ معلومات لے کر آگاہ کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ پنجاب کا معاملہ تھا تو صوبائی حکومت نے انکوائری کی جس کی رپورٹ ان کی نظر سے گزری ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ انکوائری سے مطمئن ہیں، تمام سول انتظامیہ کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور کیا چاہتے ہیں، یہ عدالت سزا تو نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بنیادی ذمہ داری تو وزیراعلیٰ پنجاب کی تھی، کیا مری کا کوئی ڈسٹرکٹ پلان بنا ہوا تھا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مری کو ضلع بنانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ وہاں کا الگ سے پلان ہو، راولپنڈی کا ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر پلان موجود تھا، کمیٹی نے اپنی سفارشات دی ہیں تاکہ آئندہ ایسا واقعہ نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی قانون پر کبھی عملدرآمد ہی نہیں ہوا، درخواست پر تحریری فیصلے میں ہدایات جاری کریں گے، یہ بات طے ہو گئی ہے کہ پالیسی میکنگ باڈی کی کبھی میٹنگ نہیں ہوئی، کسی نے اپنی ذمہ داری کبھی پوری ہی نہیں کی، اگر این ڈی ایم اے قانون پر عمل ہو جائے تو ایسا کبھی نہ ہو۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب قانون پر عمل ہونا شروع ہو گیا ہے امید ہے آئندہ ایسا نہیں ہو گا، اگر آئندہ کبھی ایسا ہو گا تو این ڈی ایم اے قانون میں شامل تمام لوگ ذمہ دار ہوں گے۔
عدالت نے این ڈی ایم اے قانون پر مکمل عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔