اگلے چند سال مطیع اللہ جان وقت نیوز سے وابستہ رہے۔ وہ صحافت کی آزادی میں کتنا یقین رکھتے ہیں، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جب ARY نیوز جس کے ساتھ ان کی کوئی نظریاتی وابستگی ہونا ممکن نہیں، پر مسلم لیگ نواز کے دور میں چند روزہ پابندی عائد کی گئی تو مطیع اللہ جان اس چینل کے لئے بھی آواز اٹھاتے نظر آئے۔ وہ اپنی ذات میں ایک تنظیم ہیں، انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ان کے ساتھ حق سچ کی آواز بلند کر رہا ہے یا نہیں۔
پھر 2018 کے انتخابات ہوئے اور وزیر اعظم عمران خان نے آتے ہی معیشت چلانے کا طریقہ یہ نکالا کہ سادگی اپنائی جائے۔ معیشت کو بٹھانے کا یہ آزمودہ طریقہ معیشت کو چلانے کے نام پر استعمال کیا گیا اور نتیجہ وہی نکلا جس کی توقع تھی۔ اس حکمتِ عملی کا ایک حصہ میڈیا کو اشتہارات نہ دینے کا فیصلہ بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک انڈسٹری جو چلتی ہی سرکاری اشتہارات کی مدد سے ہو، اس کے اچانک یوں اشتہارات بند کر دیے جائیں تو یہ اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑ سکتی۔ کہیں سے صحافیوں کو نوکریوں سے نکالے جانے کے نالے بلند ہوتے تو کہیں صحافی اپنی تنخواہیں نہ ملنے یا پہلے سے بھی کم ہو جانے پر شکوہ کناں نظر آتے۔ اسی دوران بڑے بڑے صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا جانے لگا۔ کیپیٹل ٹی وی سے مرتضیٰ سولنگی، جیو نیوز سے طلعت حسین، ڈان نیوز سے نصرت جاوید نکالے گئے تو وقت نیوز سے مطیع اللہ جان کو بھی نکال دیا گیا۔ اس کے چند ہفتے بعد وقت نیوز پورا ہی بند کر دیا گیا کیونکہ اس کے مالکان کئی سال نظریہ پاکستان بیچ کر بھاری رقمیں اڑانے کے بعد اچانک غریب ہو گئے تھے۔
مطیع اللہ جان کئی ماہ سے بیروزگار تھے۔ انہوں نے اپنا یوٹیوب چینل بنا لیا۔ اس یوٹیوب چینل سے انہوں نے MJTV کا آغاز کیا۔ کہیں بھی کوئی ناانصافی ہوتی دیکھی تو وہاں پہنچ گئے۔ صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس پر ویڈیو بنا دی، ڈان نیوز پر حملہ ہوا تو وہاں پہنچ گئے۔ حکومت پر تنقید کرتے اور کورٹ سے رپورٹنگ کرتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر بھی مطیع اللہ جان اپنی روایتی بے باکی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ کہنے پر مجبور ہوئے جو بہت سے لوگ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے ججز کو کسی کا ایجنٹ کہا اور بولے کہ دس میں سے صرف وہ 3 ججز آزاد منش ہیں جنہوں نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اختلافی نوٹ لکھا۔
اس پر عدالت نے انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ انہیں نوٹس موصول بھی نہ ہوا تھا کہ خود ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ وہاں عدالت نے 22 جولائی کی تاریخ سماعت کے لئے مقرر کر دی۔ ابھی اس سماعت میں ایک ہی دن باقی تھی کہ مطیع اللہ جان کو ان کی بیوی کے سکول کے باہر سے نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے بھائی کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن میں بتایا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان اپنی بیگم کو لینے سیکٹر G-6 میں واقع سرکاری سکول پہنچے تو وہاں اچانک چند نامعلوم افراد نے انہیں گھیر لیا، اور انہیں غائب کر دیا گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کو لینے کے لئے چھ گاڑیوں میں بھر کر سادہ لباس اہلکار آئے۔ ان میں سے چند نے Anti-Terror Squad کی وردیاں بھی پہن رکھی تھیں۔ چھ میں سے ایک گاڑی ایمبولنس تھی جب کہ ایک ڈبل کیبن۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ یہ کوئی عام اغوا نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی ملی بھگت سے کی گئی کارروائی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے لیکن ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں پکڑنے والے کوئی وارنٹ نہیں دکھا رہے بلکہ انہیں زدو کوب کر رہے ہیں اور پھر گاڑی میں ڈال کر کسی نامعلوم مقام کی طرف لے گئے ہیں۔
مطیع اللہ جان پاکستان کا ایک ایسا صحافی ہے جس نے کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر مالی مشکلات کا سامنا بھی کیا، کئی مہینے پہلے بھی بیروزگار رہا، اب بھی گذشتہ کئی ماہ سے بیروزگار ہے۔ لیکن وہ خاموش ہونے والوں میں سے نہیں۔ وہ تو شاید پیشی پر جاتا تو عدالت کے سامنے بھی کچھ ایسا کہہ دیتا کہ سننے والوں کو سبکی کا احساس ہوتا لہٰذا اسے خاموش کروانے کے لئے اس کو چھ گاڑیوں میں بھر کر آدمی لانے پڑے۔
لیکن ساحر لدھیانوی تو کہہ گئے ہیں کہ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا۔ مطیع اللہ جان اور وہ صحافی جو ریاست کو اس کا اپنا چہرہ آئینے میں دکھا رہے ہیں، ان کی آوازیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اقرار الحسن نے ٹھیک کہا کہ سوال تو وہیں پڑا ہے، سوال اٹھانے والے کو اٹھانے سے کیا ہوگا؟ ریاست کو اگر حالات کو درستگی کی طرف لے جانا ہے تو اس آئینے کو توڑنے کی بجائے جو اس کا چہرہ دکھا رہا ہے، اپنے چہرے کو درست کرے۔