سے تغافل اور ذاتی مفادات ہیں۔ اور جب تک سیاستدان اپنی سوچوں کو قوم و ملک کی ترقی اور سلامتی کے ساتھ مربوط نہیں کریںگے حالات کی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی، پریشان کن بات یہ ہے کہ ان کو ابھی تک یہ احساس ہی نہیں ہوا ۔
اب چند سیاستدانوں کے رویوں اور کردار کی وجہ سے پورا سیاسی ماحول پریشان ہے اور جو نظام کے تحت چلنا چاہ رہے ہیں وہ بھی بے بس
نظر آرہے ہیں ۔ اس صورتحال کا حل الیکشن بھی نہیں۔ کیونکہ موجودہ ضمنی الیکشنز کے بعد بھی الزامات اور مطالبات میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ جیتنے والے بھی الیکش کمیشن پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تو عام انتخابات کی طرف ہی جانا ہے تو پھر اس کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر موجودہ اسمبلیوں میں ہی آئینی طریقے سے اپنے حق کے لئے کوشش کرنی تو پھر وہ کی جائے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف الیکشنز میں بھی حصہ لے رہی ہے، صوبوں میں حکومتیں بھی رکھے ہوئے ہے اور ساتھ مرکز میں حکومت کے خاتمے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے، اگروہ واقعی الیکشنز ہی حل سمجھتے ہیں تو تمام صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے دیں اور اپنے مطالبے پرڈٹ جائیں۔
اب صرف یہ ہی نہیں اوپر سے اداروں پر بھی حملے جاری ہیں ۔ اگر تو ان کے حق میں کوئی فیصلہ آتا ہے تو خوش ہوتے ہیں تعریفیں کرتے ہیں اور اگلے ہی لمجے اگر کوئی فیصلہ مزاج کے خلاف آتا ہے تو پھر اس پر تنقید ہی نہیں الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں ۔ اور صرف وہ ہی نہیں اب تو دوسری جماعتوں نے بھی اداروں سے مطالبات کرنے شروع کر دیئے ہیں کہ ادارے تحریک انصاف کے ساتھ خصوصی شفقت کا سلوک رکھے ہوئے ہیں ۔ ان غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ہونا چاہیے ۔
اس طرح اداروں پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے ۔ اس وقت فوج نے تو لا تعلقی کا اظہار کرکے خاموشی سادھ لی ہے ۔ ابھی بھی ان کی طرف اشارے تو کئے جارہے ہیں مگر انہون نے اپنے آپ کو آئینی ذمہ داریوں تک محدود کرکے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے ۔ مگر الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ مسلسل دباؤ کا شکار ہیں اس کی وجہ وہ مقدمات ہیں جو زیر سماعت ہیں ۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس صورتحال سے علیحدہ بھی نہیں کر سکتے۔
اب اس تذبذب سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال میں ملک کی پہلے سے بدحال معیشت مزید خرابی کی طرف جارہی ہے ۔ اگر یہ صورتحال مزید تعطل کا شکار رہی تو پھر حالات بے قابو ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔
اب ایسی صورتحال میں پہلا فرض تو سیاسی قیادت پر آتا ہے کہ وہ پختگی کا مظاہری کریں اور اپنے اختلافات کو مزاکرات کی میز پر لا کر کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں جس کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی ۔
تو دوسری صورت میں اداروں پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ آئین و قانون کو حرکت میں لائیں اور بلا تفریق آئین و قانون کی پاسداری کے لئے کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے انصاف پر مبنی اپنا کردار ادا کریں اور ہر ایک کے ساتھ بلا تفریق آہنی ہاتھوں سے نمٹیں ۔ جو بھی الزام لگاتا ہے اس کو کٹہرے میں لائیں اور ثبوت مانگیں اور اگر وہ ثبوت دینے سے قاصر ہے تو اس کے خلاف کاروائی کرکے اس کی فسطانیت کو منطقی انجام تک پہنچائیں ۔
اور جو مقدمات عدالتوں میں یا الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں ان کو تیز رفتاری سے فیصلوں کی طرف بڑھائیں ۔ یہی الزامات سے جان چھڑوانے اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
صرف ایک دو مقدمات میں فیصلوں کی دیر ہے سب کی سمتیں درست ہوجائیں گی ۔ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اداروں کو تحفظ فراہم کریں ۔ اور الزامات کی صورت میں قانونی کاروائی کو حرکت میں لا کر معاملات کو عدالتوں میں پہنچائیں ۔
کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے مگر اداروں کی تکریم بھی تو بحال ہونی چاہیے اور اس میں جس کی جتنی ذمہ داری بنتی ہے اس
کو پوری کرنی چاہیے ۔
اداروں کو بھی چاہیے کہ اب وہ رعائت والی عادت بدلیں اور سختی سے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اب یہی آخری حل رہ گیا ہے ۔
حکومت کو انتظامی امور میں آزادانہ طور پر کام کرنے کا پورا ماحول مہیا ہونا چاہیے اور اگر کوئی حکومتی عہدیدار نااہلی کا مظاہرہ کرے یا اختیارات سے
تجاوز کرتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے ۔
حکومت کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے گا تو ہی وہ قانون کی عملداری میں اپنا کردار ادار کرسکتی ہے۔ اگر انتظامی عہدوں پر ان کواپنی مرضی کے افسران بھی نہ لانے دیے جائیں وہاں پچھلی حکومت کے ساتھ ہمدردیاں رکھنے والے لوگ بیٹھے ہوں تو اچھی کارکردگی کیسے دکھائی جاسکتی ہے ۔ کسی کے ہاتھ باندھے ہوئے ہوں تو وہ کیسے اپنی کارکردگی دکھا سکتا ہے ۔
الیکشن سے پہلے اصلاحات کے زریعے سے الزامات ، خدشات ، غلط فہمیوں اور بگڑے مزاجوں کو علاج ہونا چاہیے وگرنہ الیکشن سے بھی مطلوبہ سیاسی استحکام کے نتائج حاصل کرنا ناممکن ہوگا ۔
سیاسی عدم استحکام کی ایک وجہ سوشل میڈیا کی بے تکی آزادی ہے جس کے جو دل میں آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے اور کوئی تحقیق یا جوابدہی کا عمل ہی موجود نہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق دس بارہ کروڑ لوگوں کے پاس موبائل ہیں اور شرپسند کرداروں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں جس میں جھوٹ اور غلط معلوما ت کے زریعے سے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں عوام کے ذہنوں کو خراب کر رہے ہیں ۔
حق اظہار رائے کی خوبصورتی اس کی قانونی حدود و قیود کے ساتھ ہی ہوتی ہے ۔ اس حق کا یہ مطلب نہیں کہ آپ انسانی تکریم کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھیں اور جس کی چاہیں پگڑی اچھالتے پھریں ۔ اگر کوئی کسی پر سنگین الزام لگاتا ہے تو پھر اس کے پاس اس کی حمائت میں ثبوت بھی ہونے چاہیں ۔ اور بے بنیادی الزامات کے ماحول کو ختم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
شہریوں کی عزت و تکریم کی حفاظت ان کی آئینی ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی شہری یا ادارہ اس طرح کی حق اظہار رائے کے نام پر فسطانیت کا شکار ہوتا ہے تو پھر اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ حکومتی اداروں سے رجوع کرے اور حکومت کو چاہیے کہ اس پر کاروائی کا آغاز کرے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایک دو ایسے معاملات میں انصاف ملا اور ہرجانے وصول کئے گئے تو یہ حق رائے اظہار کے نام پر فسطانیت ایک دن میں رک جائے گی ۔
اس وقت قوم کے پاس دو راستے ہیں ۔ پوری قوم کو بشمول اداروں کے مل کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے آئین و قانون کی حکمرانی کی طرف جانا ہے یا تذبذب کی طرف ۔ سیاست کے اصول طے کرنا ہونگے اور پھر اس پر عمل کو یقینی بنانا ہوگا تب ہی اس کشیدگی سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔