ان سالوں کے دوران عوام کی نفسیات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کی سیاست سے مایوسی، معاشی حالات کی تنگی اور معاشرتی ضروریات کے حصول کی خواہشوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ایک خاص قسم کی ذہن سازی کر کے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کو نفسیاتی طور پر ایک خاص بیانیے کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ اب وہ اس کے علاوہ کسی اور بیانیے کو سننے یا قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ سادہ ذہن عوام نے میڈیا کے ذریعے سے ملنے والی معلومات کو حقائق کا درجہ دیتے ہوئے اس کی بنیاد پر ایک غلط یقین بنا لیا ہے۔ ان کو یہ شعور ہی نہیں تھا اور نہ ہی وہ یہ سمجھ سکے کہ ان کو معلومات دینے والا کون ہے، اس کا ذریعہ معلومات کیا ہے، اس کا ذاتی علم اور تجربہ کیا ہے یا اس کا مقصد کیا ہے۔
مین سٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک باقاعدہ سرمایہ کاری کی گئی۔ پاکستان کے عوام کے اندر انتشاری سیاست کو ذہن سازی کے ذریعے سے داخل کیا گیا۔ ان کو فرضی نعروں اور بیانیوں سے ایک جذباتی ماحول دے کر متحرک کیا گیا اور سیاسی انتشار میں ایسی کشش پیدا کی گئی کہ ہر کوئی اس کی لے پر بہتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ پاکستان کے ادارے بھی اس متاثر کن ماحول سے اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔
اس عرصہ کے دوران میڈیائی سازشی تھیوری کے بل بوتے پر عروج پانے والے کئی میڈیا اینکرز اور سوشل میڈیا کے وی لاگرز مقبول ترین نام بن چکے ہیں۔ ان سب نے اپنا کیرئیر زیرو سے شروع کیا تھا اور اب ان کے بے شمار فالوورز ہیں۔ ان کی مدد سے سوشل میڈیا میں اب ایک نیا جہاں آباد ہو چکا ہے جس کے اندر کسی باشعور انسان کا حقائق کی بنیاد پر، علم یا دلائل کے ذریعے سے ان کے غلط معلومات پر مبنی افکار کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
اب میڈیا کے ذریعے سے بنائے گئے اس نفسیاتی ماحول کے اندر اپنی جگہ بنانا ہر سیاسی جماعت کی مجبوری بنتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت کا رول بھی سوسائٹی نے ہی طے کرنا ہوتا ہے اور جب عوام کی نفیسات جذبات سے لیس سیاسی جماعتوں سے انتشاری سیاست کا مطالبہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہوں تو اس حساس نوعیت کے قومی خطرے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔
درحقیقت اس خیالی دنیا کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نا ہی اس جہان کے رہنے والوں کا زمینی حقائق سے کوئی سروکارہے۔ ان کی اس تربیت کا مقصد ہی عوام کو خوبصورت خوابوں کی دنیا میں گھسا کر معاشی تباہی کرنا تھا۔ اب اس خیالی دنیا کے رہنے والوں کی سوچ کے باعث جمہوریت جس انتہا پسندی کے طوفان کی زد میں آ چکی ہے اس کا حل صرف اور صرف ریگولرائزڈ جمہوریت میں ہی ہے۔ اس حکمت کو جو سمجھنے سے قاصر ہیں ان کو یہ فینامنا سمجھنے میں وقت درکار ہوگا۔ لہٰذا اب اس کا حل یہی ہے کہ جو ناسمجھ ہیں ان کو ان کی نفسیاتی قید میں رکھا جائے کیونکہ لاعلاج اور شدید علامات کے شکار خاص لوگوں کے لئے ایک خاص ماحول کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جب تک وہ پوری طرح سے اپنے ہوش و حواس میں واپس نہیں آ جاتے ان کو خاص نگہداشت میں رکھنے کی مجبوری ہے۔
اس ریگولرائزڈ سیاست اور جمہوریت کے لئے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے جو حقیقی جمہوریت اور اصولی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے سیاسی جماعتوں کو جمہوری اور سیاسی اقدار کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کا بھی پابند کرے اور صحیح معنوں میں سیاسی ماحول کو یقینی بنائے۔
اس کے بغیر ان انتشاری عناصر کو آزادی دے کر خواہ مخواہ کی توڑ پھوڑ اور معاشرے کے دیگر لوگوں کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لہٰذا جن کو زیادہ انسانی حقوق کا زعم لگا ہوا ہے ان کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ذہنی طور پر حواس باختہ انسانوں اور ذہنی طور پر تندرست انسانوں کے حقوق اس حد تک ہی برابر ہوتے ہیں کہ ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں مگر ان کو ایک ہی ماحول میں رکھنا ناممکن ہوتا ہے اور یہ دونوں طرح کے طبقوں کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے برعکس شور مچانے والوں کی باتوں پر توجہ دے کر خواہ مخواہ وقت، توانائی اور وسائل کو ضائع کرنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا۔
اس انتشاری سیاست نے چونکہ پورے ملک کے عوام کو متاثر کیا ہے لہٰذا کسی بھی سیاسی جماعت کو اس طرح کی نفسیات سے مکمل طور پر آزاد نہیں کہا جا سکتا مگر زیادہ تر اشارے اور شواہد موجودہ صورت حال کو تحریک انصاف کی طرف لے کر جاتے ہیں جس کی وجوہات ان کا طرز سیاست ہے۔
ان کی سیاسی حکمت عملیاں حیران کن ہیں۔ جو سیاسی جماعت دو چار ووٹوں کے فرق سے قومی اسمبلی میں عوام کی آواز بننے کی بجائے چوک چوراہوں کی سیاست کو ترجیح دے، تین چوتھائی ملک میں حکومت ہوتے ہوئے اس کی تمام تر توجہ عوام کے مسائل کی بجائے احتجاج اور دھرنوں پر ہو اور اپنی ہی حکومتوں کو ختم کر کے انتخابات میں جانے کی جلدی میں ہو اس کی سیاسی منطق بہرحال سیاسی اور جمہوری سوچ کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے تحقیقی ٹیم کے سامنے جو بیان دیا ہے اس سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کو 9 مئی کے واقعات پر کوئی پچھتاوا ہے اور نا ہی افسوس ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس طرح کا ری ایکشن جائز ہے۔ ساتھ ہی وہ پرامن ہونے کی بات تو کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے اس دوران انتشار پھیلایا اور توڑ پھوڑ کی، ان سے لاتعلقی کا بھی اظہار کر دیا جبکہ ویڈیوز میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنان تھے۔
جو لوگ انسانی حقوق اور حق آزادی رائے کی بات کرتے ہیں ان کو انتہا پسندی کی سیاست نظر نہیں آتی۔ ان کو اس پرامن احتجاج کے حق کے پس پردہ استعمال ہونے والی مجرمانہ سرگرمیاں نظر نہیں آتیں۔ کیا ان کو کیمرے کی آنکھ پر یقین نہیں آتا جس کے شواہد ان مجرمانہ افعال میں ملوث سیاسی انتہا پسندوں نے خود سوشل میڈیا کے حوالے کیے ہیں؟ کیا ان کو جمہوری اقدار اور سیاسی اصولوں سے متصادم وہ سرگرمیاں نظر نہیں آتیں جو فقط اقتدار تک دسترس کی صورت میں ہی پرامن رہنے کی عادی ہیں؟ اور اگر اقتدار ہاتھ سے چلا جائے تو وہ سب کچھ تہس نہس کرنے پر اتر آتے ہیں اور پارلیمان سے بھاگ کر چوک چوراہوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو جب وہاں بھی سکون نہیں ملتا تو وہ قومی املاک اور اداروں کی تنصیبات کو راکھ کرنے کے لئے ان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ ان سے مستقبل میں بھی اصولی سیاست اور جمہوری سوچ کی کوئی توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ سیاسی جماعتوں سے سنجیدہ مذاکرات کرنے کے لئے ابھی بھی تیار نہیں اور وہ ہمیشہ اداروں کے سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے امداد یا مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو ایسے میں ان کی سیاست ہمارے حالات سے مطابقت یا ہم آہنگی رکھتی دکھائی نہیں دیتی۔
آخر میں صرف اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ جمہوریت حق رائے دہی کا نام ہے، پرامن طریقے سے عوامی نمائندگی کے ذریعے ریاست کے انتظام و انصرام کو سنبھالنے کے نظام کا نام ہے۔ عوام کی خواہش کے مطابق اصولی سیاست کے ذریعے سے قومی مسائل کے حل ڈھونڈنے کا نام ہے۔ آپس کے اختلافات میں مکالمے کے ذریعے سے کسی نتیجے پر پہنچنے کا نام ہے۔ جمہوریت بردباری، امن اور برداشت کا نام ہے اور اس سے ہٹ کر بدامنی، توڑ پھوڑ اورانتہاپسندی کی جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں۔
جمہوریت باشعور اور اعلیٰ اخلاقیات کے حامل معاشروں کے لئے ہوتی ہے۔ سیاست خدمت کا نام ہے وہ خواہ اقتدار میں رہ کر کی جائے یا اپوزیشن میں رہ کر اور اگر اقتدار کی ہوس ہی سیاست کا محور بن جائے تو اس کو سیاست نہیں بلکہ سیاسی انتہا پسندی کہتے ہیں اور سیاسی انتہاپسندی کا علاج جمہوریت میں نہیں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے اور اس کا علاج مہذب معاشروں کے اندر آزاد چھوڑ کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسے عناصر کو ایک خاص ماحول میں محصور رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ خواہ وہ خوف کے ذریعے سے پابند رکھ کر کیا جائے یا پابند سلاسل رکھ کر۔ یہ 24 کروڑ کا ملک ہے اور ہر ایک کی رائے کا احترام بحیثیت شہری برابر ہے۔ معاشی بدحالی اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اب مزید سیاسی انتہا پسندی کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی اور نا ہی ریاست اب اس کو مزید برداشت کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔