خوراک، مسکن اور بقا پہلے کی نسبت بہت ہی زیادہ یقینی امر بن گیا ہے۔ انسان کی لڑائی فطرت سے کم اور اپنے سماجی تضادات سے زیادہ ہو گئی ہے۔ مگر ٩٩ فیصد انسانی تاریخ اس سے کچھ مختلف کہانی سناتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک انسانی تاریخ جیسی بھی کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی بلکہ یہ تاریخ ہے بہت سی انسانی انواع کی ہے جن میں سے ایک آج کا جدید انسان ہے جو بقا کی جنگ میں اب تک سرخرو ہے اور آج اس قابل ہوا ہے کہ اپنے آباء کی کہانی کو مرتب کرسکے۔
ہماری کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ہومونائیڈ کا قبیلہ پہلی بار تقسیم ہوا اور ہم اپنے کزنز ایپس سے الگ ہوئے۔ اٹھائیس لاکھ سال پہلے ہمارا قبیلہ یعنی جینس ہومو وجود میں آیا۔ ہمیں اپنے بارے میں ایسا خیال کرنا اچھا محسوس ہوتا ہے کہ نوع انسانی کہ چشم و چراغ صرف ہم ہی رہے ہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے اس کہ برعکس ہم یعنی ہومو سیپین آج سے دو لاکھ سال پہلے وجود میں آئے تو ہماری طرح کی چھ اور انسانی اقسام بھی رو زمین پر موجود تھیں۔ جو اپنی ذہانت اور ساخت کے اعتبار سے ہم سے کافی مطابقت بھی رکھتی تھی۔ ان میں سے کچھ تو بقا کی لڑائی میں بہت کامیاب بھی رہے مثلا ہومو ایریکٹس زمین پر قریب بیس لاکھ سال باقی رہے یعنی موجودہ انسانوں سے تقریبا دس گنا زیادہ، ان میں سے آخری قسم زمیں پر سے تقریبا دس ہزار سال پہلے ختم ہوئی جس کے خاتمے کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی۔
ماڈرن انسان کے ڈی این اے کا صرف دس فیصد حصہ ہی قدیم انسانوں کے ڈی این اے سے ملتا جلتا ہے اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ ان کا خاتمہ وسائل زندگی نہ ملنے کی وجہ سے ہوا یا پھر کسی اور نوع (شاید ہمارے) کے قتل کرنے کی وجہ سے، خیر جو بھی ہوا چشم دید سچائی یہی ہے کہ ہمارے خاندان میں اب صرف ہم ہی باقی ہیں۔
آج سے اٹھائیس لاکھ سال پہلے کا انسان اوزار استعمال کرنا جانتا تھا مگر بیس لاکھ سال تک کوئی خاطر خواہ ترقی نہ کرسکا۔ پھر اس نے آگ کا استعمال کرنا سیکھا۔ آگ کا مطلب تھا کھانا پکا کر کھانا جس کا مطلب تھا غذائیت سے بھرپور خوراک کا میسر آنا جس سے ہماری دماغی نشو نما میں اضافہ ہوا۔ آگ کا مطلب رات کو روشنی اور حرارت کا میسر آنا بھی تھا۔ جس سے انسان کے لیے دن لمبے ہو گئے اور سردی سے لڑنا بھی آسان ہو گیا۔ اس سے نہ صرف شکاری جانوروں کو دور رکھا جاسکتا تھا بلکے اس سے شکار کرنے میں بھی مدد ملتی تھی۔ آج سے تین لاکھ سال پہلے کا انسان (جن میں بہت سی انسانی انواع شامل تھیں) چھوٹے چھوٹے سماجی گروہ بنا کر رہنے لگا جو شکار کر کے اور اشیاء خوردونوش اکٹھی کر کے گزر بسر کرتا تھا۔ ان کے پاس جلانے کے لیے آگ تھی، پتھر کے اوزار تھے ، رہنے کے لیے خیمے اور وہ مردوں کو دفنانے بھی لگے تھے لیکن سب سے زیادہ اہم یہ کہ وہ بولنے کے لیے زبان ایجاد کر چکے تھے جو شاید آج کی زبانوں کی نسبت بہت سادہ تھی لیکن اس کی بدولت انسانوں کو اپنے تجربات کے تبادلے کے لیے ایک اوزار میسر آگیا تھا۔ یعنی انسان اب دوسری انواع کے برعکس اپنے تجربات اگلی نسل تک منتقل کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔
آئیے ایک سوال کے ساتھ بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس ایک ٹائم مشین ہو تو ماضی میں ہم کتنا پیچھے جا کر ایسے بچوں کو لا سکتے ہیں جن کو اگر جدید دنیا کا رہن سہن دیا جائے اور کچھ عرصہ تربیت کی جائے تو دیکھنے والا یہ فرق نہ کر پائے گا کہ یہ بچے اس دور کہ نہیں ہیں؟ اس سوال پر سائنسدان مختلف نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں۔ جسمانی اعتبار سے آج کا انسان دو لاکھ سال پہلے وجود پذیر ہوا لیکن شاید ستر ہزار سال پیچھے جا کر ہم رویوں کے اعتبار سے جدید انسان سے مطابقت رکھنے والے انسان کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کے بچوں کے دماغ میں شاید وہ بنیادی جینیاتی تبدیلیاں نہ ہوئی ہوں جو جدید زبان بولنے اور مجرد سوچ سوچنے کے لیے لازمی تھیں۔ لگ بھگ پچاس ہزار سال پہلے انسانی ایجادات میں بھاری مقدار میں اضافہ ہوا۔ اوزار اور ہتھیار زیادہ نفیس ہو گئے اور تمدن مزید پیچیدہ ہو گیا کیونکہ اب انسان ایک کثیرالمقاصد دماغ کا حامل ہونے کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ زبان بولنے کا اہل ہو گیا تھا اس لیے وہ معلومات زیادہ تفصیلات کے ساتھ منتقل اور موصول کر سکتا تھا۔ اس طرح انسان شکار کے دوران ایک دوسرے سے زیادہ بہتر تعاون کرنے کا اہل ہو گیا اس طرح ہم کچھ ایسی خصوصیات اور اعمال کے حامل ہونے لگے جو اس سے پہلے زندگی کی میراث نہ تھی مثلا ہم تیزی سے علم پھیلانے لگے، حاصل کردہ علم کو اگلی نسل تک منتقل کرنے لگے اور موجود علم کی بنیاد پر علم کی مزید گہرائی تک رسائی حاصل کرنے لگے۔ اس سے پہلے معلومات کا نسلوں میں تبادلہ صرف جنیاتی طریقے ہی سے ممکن تھا جو کہ ناکافی تھا۔
اس کے بعد کہ چالیس ہزار سال تقریبا ایسے ہی گزرے اور انسانی ارتقاء نے کوئی معیاری فرق نہ دیکھا ہمارے آباء بہت سارے حیوانات میں ایک نسبتا منظم سماجی حیوان کی صورت زندگی بسر کر رہے تھے لیکن ان کی یہ صورت حال انہیں کسی صورت بھی آج کے انسان سے کمتر نہیں بناتی ہے کیونکہ آپ ایک چھوٹا گھر بنانے کے علم کے بغیر ایک سو منزلہ عمارت نہیں بنا سکتے۔ ہمارا آج کا موجودہ علم جس پر جدید تہذیب کی بنیادیں قائم ہیں ہمارے آبا ؤ اجداد نے تنکا تنکا کر کے چنا ہے۔ لیکن اس کہ علاوہ بھی وہ اپنے دور کی بقا کی جنگ کہ سب سے زیادہ ماہر حیوان تھے ان کے خواس ہماری نسبت زیادہ تیز تھے، ان کے ذہن میں اپنی شکار گاہ کا نقشہ اس طرح محفوظ ہوتا تھا جیسے آج کے انسان کے موبائل میں گوگل میپ ہو وہ جسامت کے اعتبار سے آج کے انسان سے زیادہ طاقتور اور پھرتیلے بھی تھے جیسا کہ کوئی اتھلیٹ ہو، جس کی وجہ ان کی روزمرہ کی روٹین تھی اور اس کے علاوہ سماجی اعتبار سے بھی وہ آج کے انسان سے زیادہ دولت مند تھے۔ بقا کے لیے ایک اکیلےانسان کو اس قدر مہارتیں درکار ہوتی تھی کہ شاید اس وقت کے ایک عام انسان کا دماغ اپنے حجم کے اعتبار سے آج کے انسان سے بڑا تھا۔ اجتماعی طور پر تو شاید ہم اس دور کے انسانوں سے بہت زیادہ معلومات رکھتے ہیں لیکن انفرادی طور پر شاید ہماری معلومات اس وقت کے ایک عام آدمی سے کم ہوتی ہیں۔
خیر تاریخ کا سفر آگے بڑھتا ہے اور تقریبا بارہ ہزار سال قبل کرہ ارض کے مختلف حصوں میں انسان نے زراعت کا آغاز کیا اس کہ ساتھ ہی چیزیں ایک بار پھر بہت تیزی سے بدلنے لگیں، پہلے انسان کی بقا کے لیے جملہ مہارتوں کا ہونا ضروری تھا مگر اب انسانی محنت کی تقسیم وجود میں آ گئی اور انسان بقا کی ضروریات کی فراہمی کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگے۔
یعنی اب انسان کسی ایک میدان میں مہارت حاصل کر سکتے تھے۔ مثلا کوئی اوزار بنانے میں ماہر ہوتا تو کوئی فصل اگانے میں، کوئی مویشی پالنے میں ماہر ہوتا تو کوئی ایجاد کی صلاحیت کا حامل ہو جاتا۔ جیسے جیسے زراعت عام ہوتی گئی، تہذیب کا بھی بتدریج آغاز ہونے لگا۔
زراعت نے ہمیں قابل اعتماد اور قابل امکان خوراک کا ذریعہ دیا جس نے پہلی بار انسان کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ پیدا کردہ خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے راشن خانے بنائے۔
انسانوں نے ایک دوسرے کے قریب آ کر کمیونیٹیز کی شکل میں رہنا شروع کردیا۔ کمیونیٹیز کے دفاع کے لیے دفاعی ڈھانچے وجود میں آنے لگے اور انسانوں کو تنظیم (ریاست) کی ضرورت پڑی کیونکہ انسان جتنے منظم ہوتے پیداواری اور ارتقائی عمل اتنا ہی تیز ہو پاتا۔ گاؤں سے شہر، شہروں سے بادشاہتیں اور بادشاہتوں سے سلطنتیں وجود میں آئی۔ زمین کے مختلف حصوں پر رہنے والے انسانوں کے رابطے بڑھنے لگے جس سے علم ،فن اور ایجاد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔
آج سے پانچ سو سال پہلے سائنسی انقلاب کا آغاز ہوا ریاضی، طبیعات ، کیمیا ، فلکیات اور حیاتیات کے علوم کی احیاء نے ہماری پہلے کی معلومات کو بہت معیاری حد تک بدل کر رکھ دیا۔ اس کے فورا بعد دنیا میں صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے جدید عہد کی بنیادیں ڈالیں۔ جس نے محنت کو آسان بنا کر انسانیت کے ایک بڑے حصے کو اس قابل بنایا کہ وہ انسانی ترقی کے اس سفر کو تیز تر کر سکیں۔ اس کہ بعد علم کے میدانوں میں انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس نے بجلی ، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور سمارٹ فون اور بےشمار ایجادات کر کے آج کی جدید دنیا کو وجود بخشا۔
https://www.youtube.com/watch?v=1qnjsOG84DE
آج کے انسان تک پہنچنے کے لیے انسان کو ایک لاکھ پچیس ہزار نسلوں سے گزرنا پڑا۔ وہ پہلا انسان جو شکل و صورت میں ہم جیسا تھا قریب سات ہزار پانچ سو نسلیں پہلے وجود میں آیا۔ پانچ ہزار نسلیں پہلے تہذیب وجود پزیر ہوئی۔ بیس نسلیں پہلے ہم نے سائنس کا آغاز کیا اور انٹرنیٹ شاید ہم وہ پہلی نسل ہیں جو استعمال کر رہی ہے۔ آج ہم انسانیت کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور میں زندگی گزار رہے ہیں ہم نے نہ صرف اس زمیں کی تزئین، آب و ہوا اور مختلف انواع کے ارتقاء پر اثر ڈالا ہے بلکہ ہم نے چاند پر بھی اپنی عظمت کا جھنڈا گاڑھا ہے ، ہم نے انسانوں کے لیے خلاء میں معلق گھر بھی تعمیر کر لیا ہے۔ ہم نہ صرف دوسرے سیاروں پر اپنے مشینی قاصد بھیجنے میں بھی کامیاب ہوئے بلکہ میکانکی آنکھوں کی مدد سے وقت کی گہرایوں میں جھانکنے کے قابل بھی ہو گئے ہیں۔ آج کے ایک ہائی سکول کے طالب علم کا کائنات کے بارے میں علم چند صدیوں پہلے گزرے ایک سکالر سے زیادہ ہے۔المختصر اس کائنات میں ہمارا مسکن یہ زمین ہے اور ہم اس زمین کے بادشاہ۔
لیکن تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے شاید ہم آج سے ستر ہزار سال پہلے گزرے آبا سے بالکل بھی نہیں بدلے۔ انسان کے پاس خوراک کے اتنے وسائل موجود ہیں کہ پوری نوع انسانی کی بھوک مٹ سکے لیکن پھر بھی آج کا انسان بھوک سے مر رہا ہے۔ ہمارے شاپنگ مال ملبوسات سے بھرے پڑے ہیں لیکن انسانیت کا ایک بڑا حصہ مناسب لباس سے محروم ہے آج ہماری فارمسیز ادویات کا ڈھیر لگائے بیٹھی ہیں لیکن ہمارے ہی انسان ادویات نہ ہونے کی وجہ سے مارے جا رہے ہیں ہم نہ فطرت پر تو قابو پا لیا ہم زلزلے سے اب نہیں ڈرتے، کڑکتی بجلی کا خوف اب ہمیں نہیں ستاتا، ہمیں سیلاب سے لڑنا آ گیا ہے لیکن اب ہم انسانوں سے ڈرتے ہیں نہ جانے کب انسانوں کی بنائی ہوئی دنیا انسانوں کے ہاتھوں ہی تباہ ہو جائے۔
اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ساٹھ لاکھ سالہ انسانی جدوجہد کی تاریخ کو چند لالچی اور خود غرض سرمایہ داروں کہ ہاتھوں تباہ نہ ہونے دیا جائے۔ تاریخ انسانی تقاضہ کرتی ہے کہ ایک آخری لڑائی کے لیے خود کو ایک بار پھر تیار کیا جائے اور نسل انسانی کی میراث کو ان لٹیروں سے چھین کر بنی آدم کا اجتعماعی اثاثہ بنایہ جائے۔ تاکہ انسانیت اس معراج کو چھو پائے جس کے لیے وہ صدیوں سے جدوجہد کر رہی ہے۔
نوٹ : اس تحریر میں دیے گئے حوالہ جات یووال نوح الحراری کی کتاب سیپین سے اخذ کردہ ہیں اس کے علاوہ یوٹیوب چینل kurgesagt سے بھی کافی راہنمائی لی گئی ہے۔